سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر بلاول اور مریم کا بیان سامنے آیا کہ جمہوریت بہترین انتقام‘ عوامی نمائندوں نے بدلہ لے لیا۔ جمہوریت کے علمبرداروں نے جمہوری اقدار کی نفی کی۔ زرداری کے نزدیک عمران خان اسمبلیاں توڑتے ہیں تو الیکشن کیلئے تیار ہیں۔ گیلانی کے مقابلے میں ٹیکنوکریٹ حفیظ شیخ کا انتخاب ہی غلط تھا۔ عوام میں جڑیں عوامی لوگوں کی ہی ہوتی ہیں۔ ٹیکنوکریٹ کو کون جانتا ہے۔ وزیراعظم انتقام نہیں اتفاق رائے پیدا کریں ورنہ مشکلات بڑھیں گی۔ حکومت اور ن لیگ پنجاب اسمبلی میں ڈسکہ الیکشن کی تلخیاں بھلا سکتے ہیں تو وفاق میں ایسا کیوں نہیں ہوا۔ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان میں دیر کرتے تو پوری ریاست ہی عدم استحکام کا شکار ہو جاتی۔ اسمبلی میں نیا ابہام گیلانی کی جیت نے باقی حکومتی سفر مشکل بنا دیا۔ حکومت شکست سے سیکھے۔ کے پی میں پی ٹی آئی جنرل نشستوں پر کم‘ ٹیکنوکریٹ اور خواتین پر زیادہ ووٹ لے سکی۔ 2003ء سے 2018ء تک ہونیوالے سینٹ انتخابات کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سینٹ کے انتخابی نتائج کو سیاسی جماعتوں نے تسلیم کیا اور نتائج کیخلاف عدالتی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ وزیراعظم کے غلط امیدواروں کے انتخاب کرنے کا پیپلزپارٹی کو فائدہ پہنچا۔ا سٹیبلشمنٹ کی غیرجانبداری کے بعد عمران حکومت کمزور ہو گئی؟ خراب کارکردگی اور مہنگائی کی وجہ سے وزیراعظم کیلئے اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے حالات سازگار نہیں۔ پہلے وزیراعظم نے اہم معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا۔ اب پی ڈی ایم بھی یہی کریگی۔
سینٹ الیکشن میں ووٹوں کے اتار چڑھائو کے بعد اگلی سیاست شروع ہو گی۔ اپوزیشن کی کوشش ہوگی کہ حکومت کو اتار دیا جائے یا کمزور کیا جائے۔ پی ٹی آئی کیلئے اگلے اڑھائی سال لوگوں کو مطمئن رکھنا آسان نہیں۔ قلابازیاں اور سیاسی جھٹکے ضرور لگ سکتے ہیں۔ لوگ دیکھیں گے کہ حکومت عروج کی طرف گامزن ہوتی ہے یا زوال کی طرف۔ سرکاری ملازمین کے طور طریقے نہ بدلے ہیں نہ بدلیں گے۔ تبادلوں‘ ترقیوں اور میٹنگوں میں وقت پورا ہو جائیگا۔ اراکین اسمبلی کے عوام سے رابطے نہ پہلے تھے نہ اب ہونگے۔ الیکشن آئیگا لوگ سب بھول کر پھر ڈگڈگی کے پیچھے جمع ہو جائینگے۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی سب سے بڑے مسائل ہیں۔ 2020-21ء مالی سال کے دوران ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد ساڑھے 66 لاکھ تک پہنچ جائیگی جو اس سے پچھلے سال 58 لاکھ تھی۔ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے نوجوانوں کے مقابلے میں ڈگری یافتہ بے روزگاروں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں سب سے زیادہ لیبر فورس موجود ہے۔ جو ہر سال بڑھ رہی ہے۔ 20 سال سے 24 سال تک کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ 2030ء تک آبادی 28 کروڑ تک پہنچ جائیگی۔ پاکستان میں پنشنروں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے پنشن قوانین میں ترمیم کی جائے۔ ریٹائر ہونیوالے شخص کی پنشن کی زیادہ سے زیادہ مدت دس سال ہوگی۔ پنشنر کی وفات کے بعد اسکی پنشن اسکی بیوی کے نام منتقل نہیں ہوگی۔ مالی مسائل کی دلدل سے نکلنے کیلئے پنشنروں کا گلا گھوٹنا ضروری ہے؟ ہونا تو چاہیے کے تمام ادارے اپنے اپنے مینڈیٹ میں رہتے ہوئے کام کریں اگر کسی نے کوئی کرپشن یا غلط کام کیا ہے تو اسکی انکوائری کرنے کیلئے متعلقہ ادارے اور سزا کیلئے عدالتیں موجود ہیں۔ وہی گناہ گار اور بے گناہ کا فیصلہ کریں۔ یہ پریکٹس کسی صورت قابل قبول قرار نہیں دی جا سکتی کہ آپ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کسی کو بھی پکڑ کر جیل میں ڈال دیں۔ حکومت کے مختلف کمیشنوں کی انکوائریاں اس سلسلہ میں سامنے آچکی ہیں جن پر کارروائی نہیں کی جارہی۔ عوام کی بنیادی ضرورتوں کو مارکیٹ سے غائب کرکے اور ان کو منہ مانگے نرخوں پر فروخت کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں‘ انکی گرفتاریاں اور عدالتی ٹرائل کب ہونگے۔ نیب کے قوانین میں بھی سقم موجود ہیں جن کی نشاندہی سپریم کورٹ‘ ہائیکورٹس‘ ڈپٹی چیئرمین سینٹ‘ اپوزیشن رہنما بلکہ خود حکومتی رہنما بھی کر چکے ہیں۔ مہینے میں چار چار بار پٹرول مہنگا ہوتا ہے۔ دوائیاں شارٹ رہتی ہیں۔ حمزہ شہباز نے دو سال ناحق جیل کاٹی۔ کون مایوس ہوا‘ جب حمزہ شہباز نے مریم نواز کے نعرے لگوائے اور مریم نے جیل کے باہر حمزہ کا استقبال کیا۔
عوام کی آمدن تو وہی ہے مگر مہنگائی کے نتیجے میں انکے اخراجات روزبروز بڑھتے جارہے ہیں۔ تندوروں پر مزدور چنے کی دال روٹی کھاتے تھے لیکن یہی دال سب سے مہنگی ہے۔ انڈوں اور چکن کی قیمتوں کی کوئی بریک نہیں۔ سیمنٹ‘ اینٹیں‘ کوکنگ آئل‘ چائے کی پتی‘ صابن‘ مینوفیکچررز ہی تو مہنگا کر رہے ہیں۔ پاکستان اور قطر کے درمیان دس سال کیلئے ایل این جی کا معاہدہ ہوا ہے۔ پرانی قیمت پر ایل این جی لیتے تو پاکستان کو 316 ملین ڈالر زیادہ ادا کرنا پڑتے۔ حکومت کو چاہیے کہ اب جبکہ ایل این جی نئے معاہدے کے تحت سستی ملے گی تو پاور کمپنیاں آئی پی پیز سے نئے ٹیرف پر بات کی جائے اور نسبتاً سستی بجلی تیار کی اور خریدی جائے۔ بجلی بنانے کیلئے مہنگے ڈیزل کی بجائے سستی ایل این جی استعمال کی جائے۔