عالمی یوم خواتین بین الاقوامی طور پر 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے لیے ترغیب دینا ہے 1908 میںامریکا کی گارمنٹس فیکٹری کی ہزاروں خواتین نے کم تنخواہوں، کام کے اوقات اور صنفی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس مظاہرہ کے دوران احتجاج میں شریک خواتین پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور پتھر برسائے گئے۔ اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعے کچل دیا گیا، اس سانحہ کی مذمت کے طور پر28فروری 1909 کو سوشل پارٹی آف امریکا کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی، جس کے بعد امریکا میں پہلی مرتبہ 28فروری کو خواتین کا دن منایا گیا۔ دوسری جانب 19مارچ کو آسٹریا، ڈنمارک، سوئزرلینڈ اور جرمنی میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ آٹھ مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے اور اب برسوں سے 8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ چین، روس، نیپال، کیوبا اور بہت سے ممالک میں اس دن خواتین ورکرز کی چھٹی ہوتی ہے اور دیگر ممالک کی طرح بر صغیر میں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔لیکن، ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی دن کو کسی کے نام سے منا لینا کیا اس کے تمام حقوق ادا کر دیتا ہے؟ جیسا کہ آج کل فادر ڈے، مدرڈے، چلڈرن ڈے، ٹیچر ڈے، لیبرر ڈے، وغیرہ صرف ایک دن منائے جاتے ہیں، جبکہ یہ وہ سارے رشتے ہیں جن کی اہمیت ہر وقت اپنے کسی نہ کسی حقوق کی متقاضی ہے۔اس دن لاکھوں خواتین نے ملازمتوں میں عورتوں کی شمولیت، ووٹ دینے کے حق، کم اجرت اور صنفی امتیاز برتے جانے کے خلاف نکالی گئی ریلیوں میں شرکت کی۔1911 کو تاریخ میں پہلی مرتبہ 8مارچ کو عالمی یوم خواتین منانے کی مشترکہ طور پر ابتدا ہوئی اور دوسال بعد 1913 میںخواتین کے عالمی دن کے لیے 8مارچ کی تاریخ مخصوص کردی گئی۔ اس وقت سے لے کر اب تک ہرسال 8مارچ کے دن دنیا بھر میں خواتین کو مساوی حقوق دلوانے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں صنفی عدم مساوات پر روشنی ڈالنا ہے تاکہ خواتین بھی مردوں کی طرح اپنے جائز اور برابری کے حقوق حاصل کرپائیں۔ اس مہم کے ذریعے صنفی تفریق کے خاتمے سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی اور لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے گا۔ یہ دن عورتوں کے حق میں صرف نعروں یا طویل تقاریر کا نہیں بلکہ معیشت، اقتصادیات، ثقافت اور سیاست کے شعبوں میں ان کی کامیابیاں تسلیم کرنے کا ہے۔ ان کامیابیوں کو تسلیم کرنے اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے حوالے سے ہر سال مختلف فورمز پر بھی مہمات کا آغاز کیا جاتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے اردگرد موجود خواتین کی عزت اور ان کا احترام کریں، ساتھ ہی صنفی امتیاز سے بالاتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کریں۔ ترقی کی دوڑ میں جیت کے خواہشمند ملکوں کو خواتین کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے صنفی امتیاز کا خاتمہ کرتے ہوئے انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات دینا ہوںگے، جو ان کا حق ہے۔ تمام شعبہ جات میں تقرری صنفی بنیادوں کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر کرنا ہوگی، ساتھ ہی خواتین کو ہراساں کرنے کے مسئلے پر بھی قابو پانا ہوگا۔ معیشتوں اور معاشروں کی ترقی کے لیے صنفی مساوات ضروری ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان میں خواتین اب ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہیں۔ پھر چاہے وہ ملک کے دفاع کی خاطر پاک افواج میں شمولیت ہو یا روزگار کے لیے ٹرک یا گاڑی چلانا، اب کوئی ایسا شعبہ نہیںجہاں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی نہ کی جاتی ہو۔ بحیثیت ایک قوم ہم تعصب کا مقابلہ کرنے، خیالات کو وسیع کرنے، حالات کو بہتر بنانے اور خواتین کی کامیابیوں کو منانے کے لیے فعال طور پر کام کرسکتے ہیں۔عورت ایک ایسی شے ہے جس کی حیثیت کے تعین میں ہر دور میں لوگوں نے اپنی ذہنی سوچ کو اعلی وارفع دکھانے کی خاطر، کوئی نہ کوئی روپ دینے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ اس کو دیوی کا روپ دے دیا گیا اور کبھی اس کے عروج یا با عزت مقام کو برداشت نہ کر کے اس کو پستی کی انتہا تک پہنچا دیا گیا اور مذہب کے نام پر ہی برہنہ کرکے گھمایا گیا اور کبھی اس کو سماجی برابری، آزادی نسواں کا نعرہ دے کر دفتروں، کارخانوں اور دوکانوں میں لا کھڑا کیا اور عورت بیچاری ہر دور میں فریب کھاتی رہی اسلامی تاریخی کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے حقوق کا تحظ تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے کیا۔ اسلام نے عورت کو وہ چاہے جس روپ میں اس روپ میں مقام و مرتبہ عطا فرمایا ِ ماں ہے تو جنت اس کے قدموں کے نیچے ہونے کی بشارت دی۔