کام کرنے والوں کو نظر انداز کرنے کی روایت!!!!

اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کیا، انہیں دیوار سے لگایا، صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، معاشرے میں ان کے لیے مسائل میں اضافہ کیا۔ جو لوگ برسوں تک پی ٹی آئی کے لیے دن رات کام کرتے رہے جب ان کی اپنی جماعت حکومت میں آئی تو مخلص، وفادار اور باصلاحیت افراد کی اکثریت کو نظام سے دور کر دیا گیا۔ ایسے افراد کی فہرست طویل ہے۔ جن لوگوں کو نظر انداز کیا گیا ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جماعت کے سربراہ کو بھی تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی اہلیت رکھتے تھے، وہ غلط کو درست کہنے کے بجائے کسی بھی قسم کے حالات میں غلط ہی کہتے تھے۔ شاید اقتدار میں آنے کے بعد ایسی باتوں کو ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقتدار کے دوست اور ہوتے ہیں اپوزیشن کی یاریاں اور ہوتی ہیں۔
میں نے پی ٹی آئی کو بہت قریب سے دیکھا ہے مجھے اس بات پر اطمینان ہے کہ جب نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ عروج پر تھا میں اس وقت مسلسل اس حوالے سے لکھا اور چند نمایاں نمایاں ناموں کی خدمات کو یاد کیا۔ مشکل وقت میں پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے خدمات انجام دینے والے ان لوگوں کو یاد کیا جنہیں اقتدار کے ایوانوں میں بھلا دیا گیا۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ نظریاتی کارکنوں کو یاد کرنے کا سلسلہ جاری تھا وزیراعظم عمران خان نے نظریاتی کارکنوں کو ملاقات کے لیے بھی مدعو کیا لیکن اصل مسئلہ ملاقات تو ہرگز نہیں تھا۔ برسوں ملک میں بہتر سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کی جدوجہد کرنے والے افراد کو عہدوں سے غرض نہیں تھی بلکہ وہ ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواہشمند تھے۔ وہ چہروں نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی چاہتے تھے وہ اس فرسودہ نظام کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے تھے، ملک میں کروڑوں غریبوں کے لیے مسئلہ سمجھتے تھے، قانون کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ اور آئین کی عملداری کے لیے رکاوٹ سمجھتے تھے۔ پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن ملک کے ہر شہری کے لیے سستے انصاف کی فراہمی کے خواہشمند تھے لیکن دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کی کامیابی کے بعد ان کے خواب چکنا چور ہوئے۔ کیونکہ اہم عہدوں پر انہیں لگا دیا گیا جن کی جماعت سے طویل سیاسی وابستگی نہیں تھی بلکہ کچھ ایسے بھی تھے جنہیں انتخابات میں حصہ لیے بغیر ہی اہم عہدے دیے گئے۔ ایسے لوگ نہ تو پی ٹی آئی کے ورکرز کو جانتے تھے نہ انہیں تنظیم سازی سے غرض تھی نہ انہیں پارٹی کے بہتر مستقبل میں کوئی دلچسپی تھی۔ یہ سب لوگ عہدوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ انہوں نے ہر وہ فیصلہ کیا جس سے جماعت کا ووٹر بدظن ہوا۔ آج حالات یہ ہیں کہ جماعت نچلی سطح پر سب سے کمزور نظر آتی ہے۔ عہدوں کے مزے لینے والے ادھر ادھر ہو رہے ہیں۔ آج پارٹی کے مخلص کارکن کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ نظام بہتر نہیں ہوا، عام آدمی کی زندگی بہتر نہیں ہو سکی، وہ مسائل جنہیں حل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کارکنوں نے بائیس سال تک جدوجہد کی اقتدار ملنے کے بعد بھی وہ مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ نہ احتساب کے نعرے کو حقیقت میں بدلا جا سکا نہ سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکا، نہ طاقتور اور کمزور میں فرق ختم ہو سکا نہ دولتمند اور غریب قانون کی نظر میں برابر ہوئے۔ لگ بھگ ساڑھے تین سال حکومت میں گذارنے کے باوجود بھی یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہم یہ کر دیں ہم وہ کر دیں گے، ہم چھوڑیں گے نہیں، ہم رعایت نہیں کریں گے بلکہ اب تو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ میرا سڑکوں پر آنا بہت خطرناک ثابت ہو گا۔ جن مسائل کی نشاندہی میں پی ٹی آئی کی حکومت میں مسلسل کرتا رہا ہوں آج وہ مسائل زبان زد عام ہیں۔ گذشتہ روز جب عبدالعلیم خان ہمخیالوں سے ملاقات کے بعد گفتگو کر رہے تھے تو وہ ان مسائل پر روشنی ڈال رہے تھے جن کا ذکر بہت پہلے ان صفحات پر کیا جا چکا ہے۔ بہرحال خوشی کہ بات یہ ہے اب یہ باتیں اراکین اسمبلی اور اہم عہدوں پر خدمات انجام دینے والے افراد کر رہے ہیں۔
عبد العلیم خان کہتے ہیں کہ "جب حکومتیں بن جاتی ہیں تو حکمرانوں کے ارد گرد اور لوگ آجاتے ہیں۔وفادار اور برے وقت میں ساتھ دینے والے پیچھے چلے جاتے ہیں۔اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس جو مراعات ہیں شاید میرے پاس اس سے بہتر سہولیات ہیں، جو ان کے پاس سرکاری جہاز ہے میرے پاس اس سے بہتر جہاز موجود ہے، وزیراعلیٰ بننا خواہش نہیں تھی۔ میں نے عمران خان کا ساتھ اس لیے دیا تھا کہ عمران خان عوام کے لیے واحد امید تھے اس امید کیلئے ہم نے دن رات کوشش کی۔" یہ باتیں نہ میرے لیے نئی ہیں نہ ہی قارئین نوائے وقت پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہوں گے ایسی باتیں ہم متعدد بار کر چکے ہیں۔ آپ کل سے یہ بیانات سن رہے ہوں گے۔ یہاں دہرانے کا مقصد صرف یاددہانی ہے تاکہ لوگوں کو یہ احساس ہو سکے کہ اقتدار میں آنے کے سیاستدان کیا غلطیاں کرتے ہیں۔ اپنے لوگوں کو نظر انداز کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ ہے کہ آپ بے لوث افراد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ ممکن ہے جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے ساتھ بھی سارے لوگ ایسے نہ ہوں لیکن ان دونوں کے بارے میں تو کسی کو شک نہیں ہے کہ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے جس مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا۔ عبدالعلیم خان کہتے ہیں کہ "تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین سے کام کیوں نہیں لیا گیا، انہیں اہمیت کیوں نہیں دی گئی یہ آج تک پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سمجھ نہیں آسکا۔ نئے پاکستان کی جدوجہد میں عمران خان کے ساتھ جدوجہد کو آگے بڑھانے میں خون پسینہ لگانے والے لوگوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا اس کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔"
بہرحال جو سیاسی صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اگر آج پی ٹی آئی میں دھڑے بندے ہی تو اس کی وجہ کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کی قیادت ہے۔ حریف سیاسی جماعتوں سے زیادہ نقصان اس جماعت کو اپنے لوگوں کے فیصلوں، دوسرے کی رائے کو اہمیت نہ دینے کے رویے اور ہر معاملے میں خود کو سب سے بہتر اور درست سمجھنے کی سوچ نے پہنچایا ہے۔ بہرحال موجودہ سیاسی حالات کا نتیجہ کچھ بھی ہو یہ بات تو طے ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے بہترین لوگوں کا راستہ روک کر صرف اپنا ہی نہیں ملک و قوم کا بھی نقصان کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن