اپوزیشن کے 3بڑوں کا اکٹھ ترین: گروپ کے اہم فیصلے ، علیم خان شامل

Mar 08, 2022

لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور (نیوز رپورٹر‘ عبدالستار چودھری‘ خبر نگار‘ نمائندہ خصوصی‘ نوائے وقت رپورٹ) پی ٹی آئی میں اختلافات کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو رہے ہیں۔ ترین گروپ کے اجلاس میں گزشتہ روز سابق سینئر وزیر پنجاب علیم خان بھی پہنچ گئے اور ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے۔ جس کے بعد قیاس آرائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے قبل ترین گروپ کا مضبوط ہونا کئی سوالات اور شکوک وشبہات کو جنم دے رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ سابق سینئر صوبائی وزیر علیم خان بھی جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پہنچے جس میں 19 اراکین اسمبلی موجود تھے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رکن پنجاب اسمبلی علیم خان نے گزشتہ 3 روز میں درجنوں ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی ہے۔ علیم خان اب ترین گروپ سے مل کر مشترکہ سیاسی حکمت عملی اپنائیں گے۔ گزشتہ روز ترین کی رہائش گاہ پر علیم خان کا استقبال عون چوہدری نے کیا۔ اس موقع پر دیگر ارکان بھی موجود تھے۔ عبدالعلیم خان نے یہاں جہانگیر خان ترین کی رہائشگاہ پر اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ دو تین روز میں 40 اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کر چکے ہیں لیکن خود اکیلے اس اجلاس میں شرکت کے لئے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس گیارہ برسوں سے ان کی جس مقصد کے لئے جدوجہد تھی جہانگیر خان ترین اور باقی ساتھی بھی اسی کا حصہ ہیں اور جس پارٹی کے لئے دن رات کام کیا اس کے بارے میں لوگوں کے گلے شکوے سن کر دکھ ہوتا ہے۔ کسی بھی حکومت کے خلاف کھڑے ہونا آسان نہیں ہوتا لیکن جہانگیر ترین نے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا اور صوبے بھر میں بالخصوص وسطی پنجاب میں جس انداز میں کام کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ جہانگیر خان ترین سے حکومت بننے کے بعد کیوں کام نہیں لیا گیا یہ ایک بڑا معمہ ہے، سیاست دوستوں اور ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہوتا ہے۔ آج جہانگیر خان ترین علیل ہیں لیکن میں نے خود اسحاق خاکوانی سے درخواست کی کہ آج کا اجلاس جہانگیر خان ترین کے گھر پر رکھا جائے اور میں خود اس میں شرکت کے لئے آؤں گا۔ ایک سوال کے جواب میں عبدالعلیم خان نے کہاکہ میں نے وزارت اعلیٰ یا کسی عہدے کے لئے ساتھ نہیں دیا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے پاس تمام آسائشیں میسر ہیں اور میری جدوجہد کا مقصد صرف اور صرف ملک وقوم کے لئے کام کرنا ہے۔ اسی لیے دوبارہ سیاسی طور پر فعال ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کسی کو کوئی افسوس نہ ہوتا اگر وہ مقصد حاصل ہو جاتا جس کے لئے ہم نے اس قدر طویل جدوجہد کی تھی۔ لیکن ملک بھر میں بالخصوص پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرز کی حکمرانی ہے ووٹ دینے والوں کو اس پر تشویش ہے۔ اور آج کے اجلاس میں اسی معاملے پر بات ہوئی ہے کہ تمام مخلص دوست ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور ہم دیگر گروپس سے بھی اپیل کریں گے کہ وہ ہم سب کا ساتھ دیں۔ عبدالعلیم خان نے کہا کہ ہم جہانگیر خان ترین کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں اور وہ جلد وطن واپس آئیں گے اور ہم سب مل کر کام کریں گے۔ جہانگیر خان ترین کی رہنمائی کے مطابق ہماری آخری وقت تک کوشش ہو گی کہ ملک وقوم کی بہتری کے لئے مناسب سے مناسب فیصلہ کیا جا سکے۔ ایک سوال پر عبدالعلیم خان نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد آئی تو اس پر بھی سب کی مشاورت سے متفقہ فیصلہ کیا جائے گا۔ قبل ازیں جہانگیر خان ترین کی رہائشگاہ پر ہونے والے اجلاس میں 5 صوبائی وزراء سمیت 19 ارکان پنجاب اسمبلی اسحاق خان خاکوانی اور عون چوہدری کے علاوہ صوبائی وزراء نعمان لنگڑیال، سردار آصف نکئی، اجمل چیمہ، مشیران، پارلیمانی سیکرٹریز و اراکین پنجاب اسمبلی عبدالحئی دستی، رفاقت گیلانی، امیر ایم خان، زوار وڑائچ، امین چوہدری، بلال وڑائچ، سلمان نعیم، طاہر رندھاوا، سعید اکبر نوانی، فیصل جبوانہ، اسلم بھروانہ، قاسم لنگاہ، چوہدری افتخار گوندل، غلام رسول سنگاہ اور خرم لغاری نے شرکت کی اور عبدالعلیم خان کی آمد پر اظہار تشکر کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہم سب مل کر جہانگیر خان ترین کی قیادت میں مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے 3 بڑوں کا بھی اکٹھ ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ مسلم لیگ ن اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال‘ عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اہم امور پر بات چیت کی گئی۔ یوسف رضا گیلانی‘ مراد علی شاہ‘ شاہد خاقان عباسی‘ خورشید شاہ‘ نوید قمر‘ احسن اقبال‘ رانا ثناء اﷲ ‘ خواجہ آصف‘ سردار ایاز صادق‘ خواجہ سعد رفیق‘ مرتضیٰ وہاب‘ مریم اورنگزیب بھی ملاقات میں موجود تھے۔ علاوہ ازیں ایک بیان میں اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران نیازی مزید گھبرائیں گے، قوم کی گھبراہٹ کم ہوتی جائے گی۔ تحریک عدم اعتماد عوام کا مطالبہ ہے، اپوزیشن عوام کے فیصلے پر عمل کررہی ہے۔ ملک کو معاشی دیوالیہ پن سے بچانے کے لئے عدم اعتماد ہی راستہ ہے۔ معیشت کی بحالی، عوام کو مہنگائی سے نجات اور ریلیف دینے کے لئے اس حکومت کو ہٹانا لازم ہے۔ وہ لینڈ مائنز صاف کرنا پڑیں گی جو موجودہ حکومت نے معیشت اور ملک کی بنیادوں میں بچھائی ہیں۔ مہنگائی عوام کی برداشت سے باہر ہے، وہ ظالم حکومت سے نجات چاہتے ہیں۔ گالیاں تحریک عدم اعتماد کا راستہ نہیں روک سکتیں، یہ رویہ گھبراہٹ کا ثبوت ہے۔ مہنگائی کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے، اس کی غلط پالیسیز اور فیصلے ہیں۔ عمران نیازی کی خارجہ امور پر کنٹینر والی ناسمجھ گفتگو ریاست پاکستان کے لئے گھبرانے والی بات ہے۔ ریاست اور عمران نیازی کی سمت مخالف ہے، یہ قومی مفادات کے لئے نیک شگون نہیں۔ عمران نیازی اپنی سیاست، ساکھ خراب کر چکے ہیں، پاکستان کی عالمی سیاست، ساکھ خراب نہ کریں۔ ملک میں سیاست ڈبونے والا پاکستان کی عالمی سیاسی پوزیشن پر نہ بولے تو بہتر ہے۔ جوہری پاکستان کے وزیراعظم کی خارجہ امور پر غیرمحتاط گفتگو قومی مفادات کے لئے خطرناک ہے۔ معیشت، خارجہ وداخلہ امور، مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تباہی کے بعد مزید تجربات سے پرہیز ہی پاکستان کے حق میں بہتر ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت نے بھی علیم خان سے رابطہ کیا ہے۔ ترجمان ترین گروپ سلمان نعیم نے کہا ہے کہ 21 ارکان صوبائی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں۔ اتوار کے روز میری علیم خان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اندازہ ہے 20 ایم این ایز اور 50 ایم پی ایز ہمارے ساتھ ہوں گے۔ ابھی تک حکومت نے رابطہ نہیں کیا۔ رہنما ترین گروپ سعید اکبر نوانی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ رابطے کے لئے اپنے گروپ کی کمیٹی بنائی ہے جو آنئدہ حالات کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ جو ہم سے بات کرنا چاہے گا کمیٹی اس سے بھی بات کرے گی۔ مسلم لیگ ن نے ہم سے ابھی رابطہ نہیں کیا۔ مجھے ابھی تک علم نہیں  علیم خان کے ساتھ کتنے ارکان ہیں۔ ابھی حالات دیکھ رہے ہیں کیا رخ ہے، دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ کس کی خواہش نہیں ہوتی وزیر یا وزیراعلیٰ بننے کی۔ یہ بات کہنا قبل ازوقت ہے کہ ہمارے گروپ سے کوئی وزیراعلیٰ بنے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی متحرک ہوئے ہیں۔ گورنر سندھ نے علیم خان سے خصوصی ملاقات کی ہے جس میں علیم خان نے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق علیم خان کی جانب سے جو تحفظات اور مطالبات پیش کئے وہ عمران خان تک پہنچا دیئے گئے ہیں۔  ذرائع کا کہنا ہے وزیراعظم عمران خان کی وزارت عظمیٰ بچانے کے لئے پنجاب میں ناراض ارکان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے۔ شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، سابق صدر آصف زرداری  کے درمیان قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے، پی ایم کے خلاف تحریک  عدم اعتماد اور اس کی نمبر گیم  اور اس تحریک کو جمع کرنے کے امور پر اہم مشاورت ہوئی ہے، ان  کی ٹائمنگ  طے  ہو گئی تاہم حتمی   اعلان نہیں کیا جا سکا۔ تینوں جماعتوںکے درمیان بعد ازاں  وفد کی سطح پر بھی  مشاورت ہوئی۔ زرداری ہائوس  اسلام آباد  گزشتہ روز سیاسی سرگرمی کا مرکز بنا رہا۔ تینوں بڑے  قائدین کی معاونت، یوسف رضا گیلانی، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، شاہد خاقان عباسی ،خواجہ آصف،رانا ثناء اللہ، سید نوید قمر، اکرم خان درانی‘ سید خورشید شاہ، سید نوید قمر، احسن اقبال، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، مرتضیٰ وہاب اور مریم اورنگزیب نے کی۔ اگرچہ اس اہم بیٹھک کے بعد بھی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور  وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک  جمع کرانے کے بارے میں تاریخ  کا حتمی اعلا ن نہیں  ہو سکا۔ تاہم ذرا ئع نے بتایا ہے کہ قائدین میں تحریک عدم اعتماد کے لئے نمبر  گیم کے  پورا ہونے اور اسے ٹیبل کرنے پر مکمل اتفاق ہے  اورتحریک عدم اعتماد کے لئے اجلاس کی ریکوزیشن   9 یا دس مارچ کو جمع کرائے جانے کا امکان بہت  واضح ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی آج  8  مارچ کو اسلام آباد میں موجود ہوں گے، پی ایم ایل این اور جے یو آئی کی ساری قیادت اسلام آباد میں موجود ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ قریبی مشاورت ہو رہی ہے ، پی ایم ایل این کی پارلیمانی پارٹی کا  اجلاس  بھی آج ہو  رہا ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار ہے اور اس پر دستخط بھی موجود ہیں‘ اجلاس میں تحریک عدم اعتماد  کے حوالے سے مختلف آئینی و قانونی آپشنز پر غورو خوض کیا گیا۔  پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانونی ماہرین نے اجلاس میں  شرکت کی۔ اپوزیشن قائدین کو ن لیگ کی جانب سے اشتر اوصاف اور زاہد حامد جب کہ پیپلزپاٹی کی طرف سے فاروق ایچ نائیک اور جے یو آئی کی جانب سے بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے تحریک عدم اعتماد کے  آ ئینی اور قانونی پہلوؤں کے بارے میں بریفنگ دی، تینوں بڑوں کی معاونین کے  بغیر بھی ملاقات ہوئی، جب پی ایم ایل ن اور پی پی پی کے ذرائع  سے  دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کوئی قانونی یا آئینی پیچیدگی نہیں ہے ،تحریک 9تا دس مارچ کو جمع ہو جائے گی۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد اکرم درانی نے صحافیوں کو بتایا کہ آئندہ ایک دو روز میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا، تھوڑی تسلی رکھیں، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تاریخ کا فیصلہ جلد کیا جائیگا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جو فیصلہ ہوا ہے اس حوالے سے قائدین آگاہ کریں گے۔ اجلاس میں آصف علی زرداری نے اپوزیشن رہنماوں کو پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے آخری مرحلے میں شرکت کی دعوت  بھی دی۔ یوسف رضا گیلانی نے اجلاس کے بعد  میڈیا سے گفتگو  میں کہا کہ کہ فون پہلے آئے تھے نہ اب آئے ہیں۔ قانونی ماہرین غور کر رہے ہیں وہ کام کررہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے  اندر ہونے والی تبدیلیوں کے واضح شکل اختیار کرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ خواجہ آصف نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ  آج صورتحال واضح ہو جائے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ عدم اعتماد  48گھنٹے سے پہلے آجائے گی قوم کو امیدوں کے مطابق نتائج حاصل ہوں گے۔ جہانگیر ترین سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ اور نوید قمر کیساتھ ملاقات کے بعد انکے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ ہے وہ اصل عمران جو گلی کوچوں میں بازاری زبان استعمال کرتا ہے، وہ ہم کو دھمکیاں دینے والا کون ہوتا ہے۔ فضل الرحمان نے کہا کہ قوم کو امیدوں کے مطابق نتائج حاصل ہوں گے۔ مشترکہ ضرورتوں کے تحت ماضی کو بھولنا بھی پڑتا ہے۔ جن حالات سے گزر رہے ہیں۔ اس موقع پر مولانا اسعد محمود ،اکرم خان درانی ،مولانا انور اور مفتی ابرار احمد خان، اسلم غوری بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ شاید عوام بھی پرانی یادیں دہرانا پسند نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ سے یہی کھیل کھیلا ہے۔ کچھ بات کرتے ہیں کچھ چھپاتے بھی ہیں۔ اب عوام کی کیا ضرورت ہے اسے دیکھنا ہے، عدم اعتماد کامیاب ہو یا نہ ہو، یہ ایک آئینی حق ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ کراچی سے اسلام آباد تک محنت کی ہے، عمران خان کے جانے کے لیے ہی محنت کی ہے۔ خورشید شاہ اور نوید قمر نے مولانا فضل الرحمان کو لانگ مارچ کے جلسے میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملکی سیاسی صورتحال پر مشاورت ہوئی ہے ہم نے جو معلومات شیئر کی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں۔ انشاء اللہ قوم کو اچھے نتائج ملیں گے۔ ہمارے کارکنوں کی لاٹھیاں گھروں میں تیل میں پڑی ہوئی ہیں۔

مزیدخبریں