عورت مارچ ،تہذیب و شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں

عنبرین فاطمہ
ہمارے مذہب نے خواتین کو معاشرتی ،قانونی اور سیاسی حقوق عطا کئے ہیں جن کی حفاظت کیلئے حکومت کوذمہ دار ٹھہرایاجاتا ہے لیکن آئے روز جو واقعات رونما ہو رہے ہیں خواتین کی جس طرح سے عصمت دری ہوتی ہے جس طرح سے ان پر تشدد کیا جاتا ہے ان کوقتل کیا جاتا ہے کبھی بد چلنی کا الزام لگا کر/غیرت کے نام پر اور کبھی صرف اسلئے ان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق مانگنے کے لئے سوسائٹی اور ذمہ داران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیتی ہیں ۔عورت مارچ گزشتہ چند برسوں سے کیا جا رہا ہے یہ مارچ بھی کچھ حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں ہے چلیں ایک منٹ کے لئے ہم عورت مارچ کے مخالفین کے ساتھ ہی کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جب عورت مارچ نہیں ہوتا تھا جب بھی تو خواتین کے حالات یہی تھے جو آج ہیں،تب بھی خواتین ظلم سہتی تھیں، سہتی اب بھی ہیں تو کیا تب عورت کے حقوق کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کا جواز تھا؟کیا معاشرہ ، مرد اور طاقتور حلقے خواتین کے حقوق کو مانتے تھے ؟ان پر ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے؟ خواتین کو انصاف دلانے کیلئے سڑکوں پر نکلتے تھے؟ نہیں ایسا کبھی بھی کسی بھی دور میں نہیں ہوا عورت نے ہمیشہ معاشرے میں ارتقاء کے عمل سے گزر کر جد جہد کر کے خود کو منوایا اگر کسی خاتون نے کسی شعبے میں کوئی کامیابی حاصل کی تو وہ کامیابی اسے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی گئی اسکی فیملی نے بھی اسکو سپورٹ کیا جبکہ اردگرد کے لوگوں، فیملی اور سوسائٹی کو ایسا قبول نہ تھا۔
عورت مارچ کا مقصد کسی قسم کی اخلاقی اقدار کی نفی تو ہے نہیں جو اس کوبرائی سے تعبیر کرتے ہیں کیا وہ بتائیں گے کہ اسی سوسائٹی میں  ایک بہن  اپنے بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے اور عدالت اسکو سزا دیتی ہے لیکن اتنی لچک ہے کہ ماں باپ نے معاف کرکے کیس ختم کردیا ۔اسی طرح سے لڑکیوں کو ریپ کیا جاتا ہے تو ان پر اور ان کی فیملی پر اتنا دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ ریپیسٹ کو پہچاننے سے ہی انکار کر دیتی ہیں۔لہٰذاچند ایک  مخصوص واقعات اورپلے کارڈز پر لکھے جملوں کی وجہ سے پورا کا پورا عورت مارچ کیسے تنقید کی زد میں لایا جا سکتا ہے؟کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سوسائٹی خواتین کو ان کے حقوق دے رہی ہے ؟۔خواتین کو ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کو بیان کرنے کیلئے ان کے منہ پہ روایت،کلچر اور مذہب کی ٹیپ نہیں لگائی جا سکتی ۔خواتین کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے روکنا یا ان کی حوصلہ شکنی کرنا بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی بھی خلاف ورزی ہے ۔وکٹم نے کیا کہنا ہے کیا نہیں ہم اسکے منہ میں الفاظ نہیں ٹھونس سکتے جس کو چوٹ لگی ہے وہ بیان کرے گا اور ہمیں سننا پڑے گا کیونکہ ظلم تو بہرحال ہو رہا ہے۔ظالم کی نہ سنیں اسکو تحفظ نہ دیں لیکن مظلوم کی سنیں اور اسکو تحفظ ضرور دیں ۔کسی کو بھی جلتی پر تیل پھینکے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ غلامی کا کلچر آخر کب تک چلے گا؟ کیوں عورت وہ بولے وہ کہے وہ کرے جو مرد چاہتا ہے ؟دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کو مکمل آزادی ہونی چاہیے کہ وہ آگے بڑھنے اور اپنے حقوق لینے کے لئے آوازاٹھائیںاگر کسی عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو اسکو انصاف ملنا چاہیے نہ کہ اسکی آواز کو اسلئے خاموش کروا دیاجائے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
اینکر پرسن ’’عاصمہ شیرازی‘‘ جن کو سوشل میڈیا پر بری طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے صرف اسلئے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی ایک سوچ رکھتی ہیں اور اس کا کھل کر اظہار بھی کرتی ہیں، خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہم سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پراپنا مقام بنا رہی ہیں جس طرح سے خواتین آگے بڑھ رہی ہیں رکاوٹیںان کی پائوں کی بیڑیاں نہیں بن سکتیں،ان کے راستے جتنے بھی بلاک کر لئے جائیں وہ انہیں عبور کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گی اور بڑھ بھی رہی ہیں ۔میں بالکل عورت مارچ کے حق میں ہوں جس سوسائٹی/مردوں سے خواتین کا ایک دن برداشت نہیں ہو تا وہ سال کے باقی دن ان  کی خود اعتمادی کیسے قبول کرتے ہوں گے ؟۔سوچنے والی اصل میں یہ بات ہے ۔
اینکر پرسن غریدہ فاروقی جو سوشل میڈیا پر اکثر تنقید کی زد میں رہتی ہیں ان پر لفظوں کے تیر چلائے اور ہراساں کیا جاتا ہے انہوں نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین بھی اس سوسائٹی کا حصہ ہیں انہیں ہمارا مذہب اور اسلام مکمل حقوق دیتا ہے تو پھر سوسائٹی کیسے ان حقوق کی ادائیگی سے منکر ہو سکتی ہے۔جب خواتین کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے یا جو وہ سوچتی ہیں انہیں وہ کہنے کی آزادی نہیں ہو گی تو وہ پلے کارڈز اٹھا کر ہی باہر نکلیں گی ۔خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کرنے والی خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لئے باہر نکلتی ہیں میں عورت مارچ کی بالکل حامی ہوں اورمیرا بھی مطالبہ ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق دیے جائیں ا ن کو ہراساں نہ کیا جائے ،ان کو آگے بڑھنا ہے اگر تو انکی راہ میں رسموں اوررواجوں کی بیڑیاں نہ ڈالی جائیں ان کو انسان تسلیم کرتے ہوئے بنیادی حقو ق دئیے جائیں ۔ ہم عام خواتین کے مسائل اس لئے سمجھ سکتی ہیں کیونکہ ہم پر جو گزرتی ہے اور جو ہمارے ساتھ کیا جاتا ہے صرف اپنی رائے کا اظہار کرنے پرایسا برتاؤ کیا جاتا ہے تو پھر عام خاتون کن مشکلات سے گزرتی ہوگی ۔
سماجی کارکن بشری خالق نے کہا کہ خواتین کے عالمی دن کو عورت مارچ سے مخالفت کی وجہ سے متنازعہ نہیں بنایا جانا چاہیے کچھ شرارتی لوگوں نے پلے کارڈز پر لکھے جملوں کو فوٹو شاپ کیا یہ چیزیں بھی ذہن میں ہونی چاہیے ۔مجموعی طور پر ہم دیکھیں تو خواتین ہر شعبہ  میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں ہم ان کی آواز کو دبا نہیں سکتے ان کی زبان اور سوچ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ۔آزادی کے اظہار کے حق کا مطلب ہے کہ جو جس طرح سے سوچ رہا ہے وہ بول بھی سکے ۔جو کمزور ہو گا جس کے ساتھ ظلم ہو گا وہ سڑکوں پر نکلے گا،ہمارے ہاں قوانین تو بنے ہوئے ہیں لیکن ان کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے اگر نفاذ ہو بھی رہا ہے تو اتنی سختی سے نہیں ہو رہا جتنا ہونا چاہیے تبہی تو ظلم و ستم کرنے والا بچ نکلتا ہے اور عورت انصاف کے حصول کے لئے دھکے کھاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن