کسی بلند مرتبے پر پہنچنے اور کامران و با مراد کامیاب ہونے کی خواہش ، آرزو اور مقصدِ مراد فائز المرام ہے۔ اسلامی روحانی تحریروں پر مشتمل ایک کتاب بھی اسی نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف محمد عزیز سائر ’عرضِ مصنف‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کتاب قرآن وحدیث اور روز مرہ کے روشن حقائق کی روشنی میں خالصتاً معاشرتی موضوعات پر بحث کرنے کے علاوہ ان معاشرتی برائیوں اور بیماریوں کی تشخیص و نشاندہی بھی کرتی ہے جو ہم میں اور ہمارے اسلامی معاشرے میں آج کل بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں اور جو بڑی حد تک ہمارے معاشرتی بگاڑ اور ابتری کا باعث ہیں‘۔ نئی نسل میں ادب کے فقدان پر لکھتے ہیں کہ’نئی نسل تو مکمل طور پر سرکش و نافرمان اور آمادہ¿ بغاوت ہو چکی ہے جبکہ عمر میں بڑوں اور بزرگوں کی کوئی بات سننے کی ہر گز روادار نہیں ، اگر کوئی بڑا اپنی اولاد یا چھوٹے بھائی کو زندگی بھر کے تلخ و شیریں تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کوئی بات سمجھانے اور پھر ان سے وہ بات منوانے کی ذرا بھی سنجیدہ کوشش یا سختی کرتا ہے تو ایسا طوفانِ بد تمیزی برپا ہو جاتا ہے کہ الامان الحفیظ ، لہٰذا بعض بڑے بے عزتی کے خوف سے اکثر چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ‘۔
معاشرے کے سلگتے مسائل پر انتہائی کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’شومیِ قسمت کہ ہمارا گزر بسر بھی اس قریہ ، گاﺅں اور بستی میں ہو رہا ہے جہاں عام طور پر بلا شرم و تردد رات کو دن ، اندھیرے کو اجالا، سیاہ کو سفید ، زہر کو تریاق ، ہیرا پھیر ی اور دھوکہ دہی کو ہنر اور جھوٹ پر جھوٹ بولنے کو حد درجہ کمال ہوشیاری اور سیاست کہا جاتا ہے ‘۔ موجودہ ملکی سیاست پرکمال معنی خیز اور فکر انگیز تحریر نئی نسل کو بے لگام، بے ادبی بے راہ روی کی جانب دھکیلنے کی ایک مذموم سازش کی نشاندہی کرتی ہے جس کا ادراک غیر سیاسی قیادت کرنے سے کلی طور پر قاصر ہے ، جس کتاب کا مصنف اپنے الفاظ میں یوں شکوہ کناںہے کہ ’اہلِ ایمان ہو کر ہندو وانہ اور کافرانہ رسم و رواج رگ وجاںمیںسرایت کر چکے ہیں ، معاشرہ مختلف النوع برائیوں کی دلدل میں بری طرح دھنسا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ طمع سازی اپنے عروج پر ہے ،باطل کو حق ، جھوٹ کو سچ اور غلط کو ڈھٹائی کے ساتھ درست و صحیح بنا کر ایسی مہارت اور فنکاری سے پیش کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات نگاہیں حیران اورعقل دنگ رہ جاتی ہے ‘۔مصنف کا حالاتِ حاضرہ پر تجزیہ ان کے ادبی اور سیاسی شعور کی پختگی اور عہدِ حاضر کے ملکی مسائل کی تصویر کشی ہے۔ بلا شبہ عزیز سائر ادب سے وابستہ رہنے کے ساتھ دینی اور ملکی مسائل کی نشاندہی اپنی تحریروں اور شاعری میں کرتے رہتے ہیں ۔ یہ کتاب ان کی تیسری ادبی کاوش ہے۔ ان کی تصانیف میں مقامِ فکر اور احساس دورِ حاضر میں کتاب کلچر کو پروان چڑھانے کا قابلِ تحسین جذبہ ہے۔ عزیزسائر خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقے بونیر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کی 70 فیصدآبادی نا خواندہ ہے۔ ملازمت کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری تقریباً 85 فیصدہے۔ روزگار کی تلاش میں15 فیصد لوگ کراچی، حیدرآباد، پشاور اور سوات کا رخ کرتے ہیں جبکہ اس علاقے میں ادبی سرگرمیوں کو پذیرائی بھی نہیں ملتی۔ اس کے باوجود عزیز سائر اپنے قلم سے معاشرتی بگاڑ کی اصلاح اور دینی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دین سے دوری اور قومی اتحاد کے فقدان پر اپنی نظم میں لکھتے ہیں کہ
دوستو سنو عجب ہوا
پوچھیں گے آپ کہ کب ہوا
وہ کل ہوا یا اب ہوا
پس جو ہوا غضب ہوا
دنیا میں ہم وہ قوم ہیں
جو قوم نہیں ہجوم ہیں
کوئی یہاں کوئی وہاں
خبر نہیں کہ ہے کہاں
عمل کا برا حا ل ہے
نہ شرم نہ ملال ہے
مصنف نے کتاب فائز المرام میں تخلیق کائنات اور انسان کو خلیفہ¿ ربِ بار تعالیٰ کی حقیقت جس سے ربِ کریم کا انسان پر احسانِ عظیم ہوا ، انسان کی حقیقت، انسان اور انسانیت ، اسلام اور انسانیت، اسلام کے ابتدائی الفاظ و کلمات ، ایک آئینہ ، شرک، غیبت، چغل خوری، جھوٹ، بغض و حسد ، بد اخلاقی، بد سلوکی، بد زبانی، بد گمانی، تمسخر، نا انصافی، وعدہ خلافی، نشہ، چوری، جذباتی فیصلے ، بت ادبی، بے حیائی ، زن مریدی ، گالم گلوچ ، اسراف، ریا کاری ، سود ، رشوت، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی بیشی، غیر ذمہ داری، اور پیغاماتِ قرآن سے نئی نسل کو ایمان افروز حقائق سے بڑے عمدہ پیرائے میں تحریر کر کے روشناس کراناقابلِ ستائش ہے۔ پسماندہ علاقے میں عزیزسائر بونیری کی تخلیقی و ادبی خدمات اور کتاب کلچر کو روشناس کرانے کی جدوجہد ادبی جہاد کے مترادف ہے ۔