بسنت: اےک جان لےوا کھےل 

Mar 08, 2023

بلقیس ریاض


اےک اخبار کی خبر نے مجھے چونکا دےا۔ گوجرانوالہ کے علاقے مےںماڈل ٹاﺅن کی پولےس نے اےک نوجوان فےضان کو پتنگ بازی پر گرفتار کےا تھاجس پر ملزم کے رشتہ دار سمےت تےن وکلا تھانہ ماڈل ٹاﺅن مےں داخل ہو گئے اور گالم گلوچ،سنگےن نتائج کی دھمکےاں دےں جس پر پولےس نے تےن وکلا حسن رشےد،نوےد احمد،شےخ افنان رےاض کے خلاف مقدمہ درج کر لےا جبکہ مقدمہ درج ہونے کی اطلاع ملنے پر 10سے زائد وکلا نے تھانے مےں آکر شور شرابہ کےا۔ ملزمان کے زدوکوب پر پولےس کانسٹےبل کی وردی پھٹ گئی۔ درےں اثناءپابندی کے باوجود گوجرانوالہ شہر مےں بھرپور بسنت منائی گئی۔ شہر کے مختلف علاقوں مےں رنگ برنگی پتنگےں آسمان پر اڑتی رہےں حالانکہ حکومت کی طرف سے پابندی عائد تھی۔ کئی جگہ پر ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔ درجنوں پتنگ باز گرفتار کر کے پتنگےں اور ڈور برآمد کر کے مختلف تھانوں مےں شفٹ کر دےا گےا۔ 
دوسری طرف فےروزوالہ روڈ پر پتنگ بازی کرتے ہوئے چودہ سالہ حماد کی پتنگ بجلی کی تاروں پر گر گئی جس سے نوجوان کو بجلی کا جھٹکا لگا جبکہ قرےب موجود ماں کبریٰ نے بےٹے کو بچانے کی کوشش کی تو اسے بھی شدےد کرنٹ لگا جس سے ماں موقع پر جاں بحق ہو گئی۔ حماد کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کر دےا گےا۔ اےسا سانحہ پڑھ کر دل پرےشان ہو گیا۔ بےچاری اےک غرےب ماں بےٹے کو بچاتے بچاتے کرنٹ لگنے سے اپنی جان دے بےٹھی۔اللہ نے ماں کا دل بھی کےسا بناےا ہے کہ وہ اولاد کو تکلےف اورمرتے نہےں دےکھ سکتی۔ بسنت جب بھی آتی ہے تو بہت سے لوگوں کی جان لے لےتی ہے۔ نہ جانے اس ہندوانہ رسم کو لوگ کےوں اپنائے ہوئے ہےں۔ لاکھوں کروڑوں روپے گڈےوں، پتنگوں اور ڈور پر خرچ ہوتے ہےں۔ ےہی روپے ملک کی فلاح کے لیے استعمال کیے جائےں تو کتنا ہی اچھا ہو مگر لوگ تو کئی روز پہلے ہی اس کی تےارےوں مےں مصروف ہو جاتے ہےں چاہے پابندی لگے ےا نہ لگے انھوں نے ہر صورت بسنت منانی ہے۔
باقاعدہ شادی بےاہ کی طرح جو کبھی کھانا دےا جاتا تھا بالکل اسی طرح کھانوں کا اہتمام کےا جاتا ہے۔ لڑکے اور لڑکےاں پےلے رنگوں کے ملبوسات مےں گھر کے کوٹھوں پر گڈےاں پتنگےں اڑاتے نظر آتے ہےں۔ دعوت نامے چھپتے ہےںاور رات کی تارےکی مےں رت جگا مناےا جاتا ہے۔ ڈور کو تےار کےا جاتا ہے۔ پابندی کے باوجود اندرون شہر مےں اس قدر رونق ہوتی ہے کہ رات کو دن کا سماں لگتا ہے۔ اےک روز پہلے لوگ خوشےوں کے گہوارے مےں جھولا جھول رہے ہوتے ہےں۔ ےہ معلوم نہےں کہ کل کا دن نہ جانے کس پر بھاری گزرے گا۔ اکثر سنا جاتا ہے کہ فلاں بچہ کوٹھے سے گر کر مر گےا اور فلاں نوجوان رائفل کا ہوائی فائر کرتے ہوئے جاں بحق ہو گےا۔ اےک جان کا نہےں بلکہ ہزاروں جانوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ نہ جانے اس تہوار کو دھوم دھام سے کےوں مناےا جاتا ہے جبکہ ہم مسلمان ہےں ہماری رسمےں بھی اسلامی ہونی چاہئےں۔
خوشی کا اظہار کسی اور رنگ سے بھی کےا جا سکتا ہے مگر اتنی جانوں کے نقصان کے بعد بھی لوگ اگلے سال جب بسنت آتی ہے تو سب بھول بھال کے اس کی تےارےوں مےں لگ جاتے ہےں۔ ےہ نہےں سوچتے کہ بسنت منانے مےں پابندی ہے اےسا کرنے سے قانون کی خلاف ورزی بھی ہو گی مگر ان کے کانوں مےں جوں تک نہےں رےنگتی۔ ےہ کسی اےک کے گھر کا شوق نہےں بلکہ گھر گھر اس رسم کو اپناےا جاتا ہے۔ عمر رسےدہ لوگ بھی نوجوانوں مےں شامل ہو کر بسنت مناتے ہےں۔ بعض لڑکےاں پتنگ اڑاتی ہوئی نظروں سے گزرتی ہےں۔ ان کے والدےن ان لڑکےوں کو کچھ نہےں کہتے۔ بسنت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ ضےافتےں اڑائی جاتی ہےں۔ اچھے اچھے کھانوں سے خوشبوئےں سارے محلے مےں اٹھ رہی ہوتی ہےں۔ کئی لوگ تو بسنت کا تہوار منانے کے لیے سارا سال روپےہ جمع کرتے ہےںتاکہ جب بسنت آئے تو وہ اپنے دوستوں کو بلا کر اچھے کھانوں سے ان کی تواضع کر سکےں۔ نہ صرف کھانوں پر روپےہ خرچ ہوتا ہے بلکہ پتنگ بازی پر بھی خوب خرچہ آتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ خدارہ اپنے بچوں کو پتنگ بازی سے روکےں اس سے کئی جانےں چلی جاتی ہےں تو ےہ جواب ملے گا ےہ تو بچوں کا شوق ہے۔ بے چارے سال مےں اےک مرتبہ تو خوش ہوتے ہےں۔ پھر موت کا دن تو معےن ہے اس نے توآنا ہی ہے اگر پتنگ بازی نہ بھی کرےں تو جس نے مرنا ہے وہ مر جائے گا۔
موت پر کسی کا زور نہےں ہے۔ ےہ تو وہ بات ہوئی کہ اگر سانپ سامنے ہو اور ےہ کہو کہ اگر اس کے منہ پر انگلی ڈال دو اگر مرنا ہے تو اس کے ڈسنے سے مر جائےں گے۔ اگر موت نہےں آنی تو اس کے منہ پر انگلی ڈال کر بھی نہےں آنی۔ اب اےسی قوم کو کےا سمجھائےں۔ والدےن نے نہ جانے کتنے سہانے خواب اپنے بچوں کے بارے مےں سجا رکھے ہوتے ہےں مگرموت بھی کتنی بے رحم ہے جب آتی ہے تو عمر کے کسی بھی حصے مےں آجاتی ہے۔ کاش اگر لوگ بسنت سے بازآجائےں تو لوگوں کے گھر کے چراغ کبھی نہ بجھےں۔ حکوت کو چاہےے کہ پوری طرح بسنت کی پابندی پر اےکشن لے۔ اگر اےسا نہےں ہو سکتاتوانھوں نے حکومت کےا چلانی ہے۔ حکومت تو وہ لوگ چلاتے ہےں جو عوام کے دکھ سکھ کو محسوس کرتے ہےں ان کے دکھ کا مداوہ بنتے ہےں۔ ان کی تکلےفوں کو دور کرتے ہےں۔ اس کو اچھی حکومت کہتے ہےں ۔ کاش اےسی حکومت ہماری بھی ہو لےکن افسوس ان کو بس اپنی کرسی کی فکر پڑی ہوئی ہے۔

مزیدخبریں