اس دنیا میں محرومیوں کا شکار لوگ اگر زندہ ہیںتو ان کے پیچھے بڑے چھوٹے رفاہی اور فلاحی ادارے ہیں۔ہم نے بل گیٹس فاﺅنڈیشن کا نام سن رکھا ہے جو عالمی سطح پر سرگرم عمل ہے۔ پاکستان میں ایدھی فاﺅنڈیشن، الخدمت فاﺅنڈیشن، ہیلپنگ ہینڈ فاﺅنڈیشن اور اس طرح کے بیسیوں ادارے شب و روز لوگوں کی محرومیاں دور کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایسے لوگ بھی اس معاشرے میں موجود ہیں جو حاجت مندوں کو انکے دروازے پر ضرورت کی اشیاءفراہم کرتے ہیں ۔ کرونا وائرس کے قیامت خیز لمحات میں تو الخدمت کے رضاکار رات کے اندھیرے میں دستک دے کر راشن کے ڈبے اور تھیلے دہلیز پر رکھ جاتے تھے۔ پاکستان میں خدمت خلق کا جذبہ لوگوں کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ ہم سب نے اس کا مشاہدہ 2005ءکے تباہ کن زلزلے میں کیا، 2010ءکے سیلاب میں کیا۔ اور پچھلے سال کے قیامت خیز سیلاب کے سونامی میں کیا۔ اس سیلاب کو تقریباً آٹھ نو ماہ ہوچلے ہیں، مگر لوگ ابھی تک کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ مگر خدمت خلق کے ادارے مسلسل انکی بحالی اور ریلیف کے کاموں میں مصروف اور سرگرم ِ عمل ہیں ۔
ملک میں جہاں بڑی اور وسیع سطح پر خیراتی ادارے کام کررہے ہیں ، وہاں کوئی لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ادارے بھی قائم کررکھے ہیں،جن کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تو نہیں،لیکن بہرحال وہ خدمت خلق کا کام کرنے کیلئے اپنے اپنے پلیٹ فارم پر کوشاں رہتے ہیں۔ انہی میں ڈاکٹر آفتا ب صدیقی کی جینا فاﺅنڈیشن بھی شامل ہے ۔ اس فاﺅنڈیشن کی طرف سے ایک طرف تو یتیموں اور بیواﺅں کو نقد امداد فراہم کی جاتی ہے ، تاکہ بچے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور خواتین اپنا کچن چلاسکیں اور خانہ داری کے دیگر امور سرانجام دے سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ جینا فاﺅنڈیشن کی طرف سے اسکولوں کے بچوں کیلئے کیمپ لگائے جاتے ہیں اور ان کا جسمانی و طبی معائنہ بھی کیا جاتا ہے ۔ کسی بچے کی نظر خراب ہو تو اس کو فری عینک فراہم کی جاتی ہے ۔ کسی بچے کو جسمانی کمزوری لاحق ہو تو اس کو غذائی چارٹ بناکر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے وٹامن کی کمی پوری کرسکے ۔کسی بچے کا وزن ضرورت سے زیادہ ہو تو اس کو وزن کم کرنے کیلئے اچھے اچھے قابل عمل طبی مشورے فری دیئے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب صدیقی نے یہ کام امریکہ اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں مصروفِ عمل بعض این جی اوز سے سیکھا۔وہاں کے تعلیمی ادارے اور والدین ایسی تنظیموں سے بھرپور تعاون کرتے ہیں اور ان کا کیمپ لگنے کے منتظر رہتے ہیں ۔ ان تنظیموں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو درپیش ذہنی ،جسمانی، نفسیاتی مسائل کا حل غذائی کنٹرول سے کریں ۔ لیکن بعض صورتوں میں اگر بچوں کو دوائی کی ضرورت ہو تو انہیں نسخہ لکھ کر دے دیا جاتا ہے ۔ مگر ڈاکٹر آفتاب صدیقی چونکہ خود ایک ادویہ ساز کمپنی کے مالک ہیں ، اس لئے وہ بچوں کی ضرورت کی دوائیں اپنی فارمیسی سے لے کر ہی فری تقسیم کردیتے ہیں ۔ ڈاکٹر آفتاب صدیقی کا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں والدین ہرصورت میں بچے کو اسکول بھیجنے کی ضد کرتے ہیں ،خواہ بچہ بخار اورنزلہ زکام میں ہی کیوں نہ ہو۔ والدین کی نفسیات یہ ہے کہ بچہ سکول سے غیرحاضر نہ ہونے پائے ۔ لیکن بیمار بچے کو سکول بھیج کر اس کی بیماری کو پیچیدہ تر بنادیا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر آفتاب صدیقی کا مشاہدہ ہے کہ کلاس روم میں ایسے بچے بھی بیٹھے ہوتے ہیں کہ انہیں کلاس روم میں تختہ سیاہ یا وائٹ بورڈ پر استاد کا لکھا ہوا نظر نہیں آتا۔ ایسے بچوں کے کلاس میں جانے اور بیٹھے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ نظر کی کمزوری فطری اور پیدائشی طور پربھی لاحق ہوجاتی ہے ، لیکن فی زمانہ سمارٹ موبائل فون نے بچوں کی آنکھیں برباد کرکے رکھ دی ہیں۔ چھوٹے بچے موبائل فون پر گیمز کھیلتے ہیں، بڑے بچے چیٹنگ وغیرہ میں مصروف رہتے ہیں ، سمارٹ موبائل فون سے نکلنے والی شعائیں آنکھوں کو شدید اور فوری طور پر متاثر کرتی ہیں۔ سمارٹ موبائل فون کی لعنت نے نئی نسل کی بینائی کو گھن کی طرح کھالیا ہے ، اس سے سردرد ،چڑچڑاپن اور دیگر نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر آفتاب صدیقی باقاعدہ طور پر سکولوں میں کیمپ لگاتے ہیں او ر بچوں کی صحت وجسمانی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ کوئی مسئلہ بگڑنے پائے، وہ اسے کنٹرول کرنے کےلئے مناسب ہدایات دیتے ہیں ۔
ان سب کاموں کیلئے والدین کا تعاون بے حد ضروری ہے ، تاکہ وہ خود بھی بچوں کی سمارٹ موبائل فون کی لت کو کنٹرول کرسکیں۔ بعض بچے تو کمبل اور رضائی کے اندر بظاہر خراٹے لے رہے ہوتے ہیں ، لیکن سکرین کی روشنی سارا بھید کھول دیتی ہے ۔ اس عادت کو ختم کرنے کیلئے والدین کا کردار بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ جینا فاﺅنڈیشن کا سلوگن اور نعرہ ہے کہ جینا بچوں کیلئے، بچے آپ کیلئے۔ اس سلوگن کی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ نعرہ ظاہر کرتا ہے کہ جینا فاﺅنڈیشن اور اسکے سرپرست ڈاکٹر آفتاب صدیقی کو بچوں کی صحت کا کس قدر خیال ہے ۔یہ سلوگن دراصل انکے جذبے اور اس تڑپ کا اظہار ہے کہ نئی نسل کو صحتمند رکھا جائے تاکہ ہمارا مستقبل بیماریوں سے محفوظ رہ سکے ۔ روشن ہوسکے، خوشحال ہوسکے۔ڈاکٹر آفتاب صدیقی نے برطانیہ کی ایک دواساز کمپنی ”گولڈشیف“ کے تعاون اور لائسنس سے پاکستان میں کیمیکل سے فری ادویات بنانے کی فیکٹری سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں قائم کررکھی ہے ، ان کی ادویات میں خالص غذائی مواد شامل کیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے علاوہ ان کی ادویات افغانستان او ر بعض افریقی ممالک میں برآمد کی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب صدیقی یقین دلاتے ہیں کہ اوّل تو ان کی ادویات سے لوگوں کو فائدہ ہی پہنچے گا ، لیکن باالفرض محال اگر کوئی فائدہ نہ بھی ہو تو صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ کیونکہ ان کے کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ یہ ساری ادویات کیمیکل فری ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر آفتاب صدیقی کئی سطح پر معاشرے کیلئے مثبت اور مفید خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ دعا ہے کہ انکی جینا فاﺅنڈیشن اللہ کی رضا کیلئے بچوں کو صحت مند ،توانا اور طاقتور رکھنے میں اپنا کردار جاری وساری رکھے۔