آخر کو آدمی ہوں، فرشتہ نہیں ہوں میں 


سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کچھ ارشادات کئے ہیں جنہیں اعترافات کہا جائے یا انکشافات، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ بہرحال، اس کے نتیجے میں کوئی خاص ہلچل تو پیدا نہیں ہوئی البتہ تبصروں کی ایک ہلکی پھلکی لہر میڈیا پر ضرور نمودار ہوئی۔
یہ تو فرمایا کہ عمران خان کو مکمل طور پر صادق امین قرار نہیں دیا تھا لیکن یہ نہیں فرمایا کہ پھر کس حد تک قرار دیا تھا؟۔ دوتہائی صادق امین یا ایک تہائی؟۔ یا پھر سادہ اکثریت والا؟۔ ایک تبصرہ یہ بھی ہوا کہ صادق اور امین کا لقب صرف ایک مقدس ترین ہستی کے لیے ہے، کسی بھی دوسرے کے لیے اس کا استعمال غلط ہے۔ 
اس تبصرہ کی درستگی تاریخ سے ثابت ہے۔ تاریخ میں ان گنت ائمہ کرام ، اولیا اور مذہبی ہستیاں گزری ہیں جن کی صداقت اور امانت پر کسی کو شک نہیں لیکن کسی بھی سوانح نگار یا تذکرہ کار نے ان میں سے کسی کو صادق اور امین نہیں کہا بلکہ راست باز، صدق شعار، ایمان دار، امانت دار کے الفاظ ان کے لیے استعمال کئے۔ 
معنوی طور پر کسی بھی سچے آدمی کو صادق اور امانت دار کو امین کہا جا سکتا ہے لیکن اصطلاحی طور پر صادق اور امین کا لقب صرف ایک ہستی کے لیے مخصوص ہے لیکن اس تبصرے کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ لقب ہر خاص و عام کے لیے آیا کیسے؟
__________
یہ اصطلاح آئین میں مرد مومن مردحق نے داخل کی تھی۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ صرف ان کے ’’مطلب‘‘ کے لوگ سیاست میں رہیں، باقی غائب کر دئیے جائیں۔ یہ نئے طرز کا ریبڈر تھا۔ ملک پر مارشل لا تھا، کسی کو بولنے کی جرأت نہیں تھی چنانچہ یہ ترمیم بھی ’’محفوظ اور مامون‘‘ رہی۔ 
ضیاء الحق کی وفات کے بعد لوگ بھول بھال گئے، یہ شق کسی پر استعمال ہی نہی ہوئی، گویا طاق نسیاں میں چلی گئی۔ 
بہت بعد میں، سن دو ہزار سترہ میں اس ترمیم کو دھو دھلا کر نکالنا مقصود تھا۔ جیسا کہ ثاقب نثار نے اپنے تازہ ارشادات میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بعض بااثر لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ نواز شریف کو نااہل کرنا ضروری ہے۔ 
اس مقصد کے لیے پانامہ سکینڈل کو استعمال کیا گیا۔ سکینڈل نمودار ہوا، خوب غل مچا، جسٹس آصف کھوسہ نے عدالت میں بیٹھ کر عمران خان کو دعوت دی کہ وہ اس کیس کو لے کر عدالت تشریف لائیں تاکہ ہم یہ اہم قومی تقاضا پورا کر سکیں۔ 
پانامہ پیپرز کی تفصیلی جانچ پڑتال ہوئی۔ امانت داروں کی ایک ٹیم بنائی گئی جسے عدلیہ نے ’’ہیروں کا ہار‘‘ قرار دیا۔ اس ہار کا سردار جسے کوہ نور کے لیے ، لندن روانہ کیا گیا۔ وہ فائلوں سے بھرے دس صندوق لایا۔ کاغذات کو پہلے ہی کھنگالا جا چکا تھا لیکن کچھ ہاتھ نہ آ سکا۔ اب ان صندوقوں کا خوردبینی جائزہ لیا گیا، یہاں بھی گوہر مراد ہاتھ نہ آ سکا۔ ہون کیہہ کر ئیے؟۔ پانامہ بینچ سوچ میں پڑ گیا، ثاقب نثار کی راتیں بھی بے خواب گزرنے لگیں۔ آخر ’’کشف‘‘ ہوا، کیوں نہ بھیڑئیے اور بھیڑ کی کہانی کو مثالی بنایا جائے۔ تم نے پانی گدلا نہیں کیا تو تمہارے باپ نے کیا ہو گا۔ چنانچہ کہا گیا کہ تم نے دبئی میں اپنے بیٹے کی فرم میں منصب داری سنبھالی۔ تنخواہ اگرچہ نہیں لی لیکن لے تو سکتے تھے اور اگر لے سکتے تھے تو مطلب یہ کہ تمہارے اثاثوں میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ تم نے یہ ہو سکنے والا اثاثہ اپنے انتخابی فارم میں درج نہیں کیا چنانچہ تم نااہل۔ کسی نے اعتراض کیا کہ یہ کون سا قانون ہے، ارشاد ہوا، ہمارے پاس ’’لغت کالا قانون‘‘ (بلیک لا ڈکشنری) ہے، اس میں یہ قانون لکھا ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس قانون پر عمل کیا جائے، عمل نہیں کریں گے تو لاقانونیت ہو گی۔ 
کچھ دن بعد اندازا ہوا کہ قانون پر عمل درآمد میں کچھ کمی رہ گئی۔ دوبارہ اجلاس ہوا اور نااہلی عمر بھر کے لیے کر دی گئی۔ جسٹس ثاقب نثار اس بارات کے حقیقی دلہا تھے، بنچ کے باقی ارکان شامل باجہ تھے اور عدالت سے باہر جماعت اسلامی واحد پارٹی تھی جو ’’جماں جنج نال‘‘ والا معاملہ بنی ہوئی تھی۔ نواز شریف کی عمر بھر کی نااہلی کے بعد جماعت سکنت قلب سے مالا مال ہو گئی اور بہت سے دوسرے اہل ایمان بھی، صداقت امانت کا جھنڈا گاڑا جا چکا تھا۔ 
__________
اس ترمیم کا دوسرا استعمال تب ہوا جب یہ سوچا گیا کہ عمران خان کو الیکشن جیتنے کے لیے بہت بڑے ہموار میدان کی ضرورت ہے۔ میدان کی ہمواری کا آغاز انہی ثاقب نثار نے خان صاحب کو صادق امین قرار دے کر کیا، پھر جو معاملہ چلا وہ بہت سے مراحل سے گزرا، آخر میں آرٹی سسٹم بٹھانے اور پھر جہانگیر ترین کا جہاز چلانے تک پہنچا۔ بالآخر صادق امین حکومت قائم ہو گئی۔ 
قوم کی یہ بہت بڑی خدمت تھی۔ ایک بہت بڑی خدمت ایک تہائی صدی پہلے بھٹو مرحوم کو پھانسی دے کر کی گئی۔ یہ دوسری بڑی خدمت بلاشبہ قوم پر احسان تھا لیکن یہ احسان بہت مہنگا پڑا۔ ملکی معیشت کا ایسا تیا پانچہ ہوا کہ اب ادھڑے بخیے سینے کے لیے سوئی مل رہی ہے نہ دھاگہ اور مل بھی جائے تو معیشت کا لبادہ ایسا تار تار ہوا ہے کہ اسے پھر سے کیسے بنا جائے، کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ تار تار الگ ہے، بہت سا تانا بانا سرے سے غائب ہے اور 2017ء کے پانچ برس بعد ثاقب نثار نے فرمایا ہے، انسان ہوں، مجھ سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ اس عاشقی میں ثاقب صاحب کا ادارہ بھی بحث تلے ہے، یہ ایک ضمنی سانحہ ہوا۔ انسان بے شک خطا کا پتلا ہے۔ یحییٰ خان سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی اور جنرل عبداللہ نیازی سے بھی۔ غلطی کیا کیا ہے، ہر بندے بشر سے ہو ہی جاتی ہے۔ 
آخر کو آدمی ہوں ، فرشتہ نہیں ہوں میں 

ای پیپر دی نیشن