سستی دواء کا خواب ، تعبیر ممکن ہے !


فکر فردا/ ڈاکٹرمرتضیٰ مغل
drmurtazamughal@yahoo.com
پاکستان کے معاشی حالات ایسے بگڑے کہ غریب آدمی کی قسمت ہی بگڑ گئی۔ہربل ادویات غریب آدمی کی پہنچ میں تھیں لیکن اب کوئی معجون خرید کر دیکھیں ہاتھ خود بخود کانوں تک جاپہنچتے ہیں۔ایک واحد ہومیوپیتھک میڈیسن ہیں جو مقامی سطح پر تیار ہوں تو ہر مریض کی پہنچ میں آسکتی ہیں۔سوائے ضروری سرجری کے ہر مرض کا علاج بھی اس طریقہ میں موجود ہے۔میں اکثر کہتا ہوں اور برس ہا برس کے تجربے اور مشاہدے کے بعد یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ ہومیوپیتھک ادوایات کی تاثیری کرامت جیسی ہوتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں انگریز دور سے وجوہ انگریزی ادویات کو فروغ دیا گیا ہے لہذا ابھی وہ وقت شائد دور ہے جب عام لوگوں کا مائنڈ سیٹ بدل جائے گا اور وہ متبادل ادویہ کی طرف راغب ہونگے۔ہم سستے اور موثر طریقہ علاج سے کیوں بھر پور فائدہ نہیں اٹھا پارہے اس کی وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہومیوپیتھی پاکستان میں دوا کی ایک مقبول متبادل شکل بنتی جارہی ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 15,0000 سے زیادہ رجسٹرڈ ہومیوپیتھک پریکٹیشنرز ہیں، اور ہومیوپیتھک علاج کی مانگ بہت زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن یہ دیہی علاقوں میں زیادہ مقبول ہے۔حکومت بھی ہومیوپیتھی کو دوا کی ایک شکل کے طور پر تسلیم کررہی ہے، ملک بھر میں متعدد ہومیوپیتھک میڈیکل کالج اور ہسپتال بھی قائم ہیں۔ حکومت نے ہومیوپیتھی کی پریکٹس کو فروغ دینے اور اسے بہتر بنانے کے لیے مختلف پروگرام بھی شروع کیے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہومیوپیتھی کی بارے میں مسلسل شکوک و شبہات پھیلائے جاتے ہیں اور بغیر دلیل تنقید کی جاتی ہے۔ ایلو پیتھک سیکٹر کا کہنا ہے کہ ہومیوپیتھک علاج کی تاثیر کی حمایت کرنے کے لیے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں۔ جب کہ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر یہ ادویات سنگین طبی حالات میں روایتی ایلوپیتھک ادویات کے متبادل کے طور پر استعمال کی جائیں تو نقصان ہو سکتا ہے۔یہ سارے اعتراضات جوں کے توں رہیں گے جب تک ہومیوپیتھی کے فروغ میں درپیش چیلنجز کا سامنا نہیں کیا جاتا۔ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہومیوپیتھی کو ایک متبادل دوا سمجھا جانے لگا ہے، لیکن اس کی تاثیر کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی شواہد کی کمی ہے۔ پاکستان میں طبی طبقہ ہومیوپیتھی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے، اور بہت سے ڈاکٹرز اور صحت کے ماہرین اسے علاج کی ایک درست شکل نہیں مانتے۔اس چیلنج سے نپٹنے کا طریقہ بھی سائنسی ہے۔اگر ہم مختلف دوائیوں کی تاثیر اور نروس سسٹم پر کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں عام فہم سی معلومات تحریری شکل میں لکھ کر مریضوں کو دینا شروع کردیں تو طبی ماہرین کے اندر شکوک و شبہات کی جگہ یقین پیدا ہونا شروع ہو جائے گا۔پاکستان میں ہومیوپیتھی کو پوری طرح ریگولیٹ نہیں کیا جاتا، جس کا مطلب ہے کہ عطائی ڈاکٹر کسی بھی مناسب تربیت یا قابلیت کے بغیر اس پر عمل کر سکتا ہے۔ ضابطے کی اس کمی کے نتیجے میں غیر موثر یا حتیٰ کہ نقصان دہ علاج بھی ہو سکتا ہے، جو اس عمل میں عوام کے اعتماد کو مزید ختم کر دیتے ہیں۔روایتی انگریزی ادویات کی پاکستانی ثقافت میں گہری جڑیں ہیں، اور بہت سے لوگ علاج کی نئی شکلیں آزمانے میں ہچکچاتے ہیں۔ ہومیوپیتھی کو اکثر غیر ملکی(جرمنی ) پریکٹس کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس سے عام لوگوں میں قبولیت حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ہومیوپیتھک اداروں کو یہ بتانا ہوگا کہ یہ بھی ایک میڈیکل کے اصولوں کے مطابق علم ہے جسے کہیں بھی کسی بھی خطے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔اگر پینسلین غیر ملکی دوائی نہیں ہے تو میگ فاس کیسے غیر ملکی ہوگئی۔سچ یہ کہ پاکستان میں بہت سے لوگ ہومیوپیتھی یا اس کے ممکنہ فوائد سے واقف ہی نہیں ہیں۔ہومیو طریقہ سے ہم  بیماریوں ،ٹانسلز جوڑوں کے درد، معدہ، گردوں اور جگر کی بیماریاں مثلاََ ایچ پائیلوری، فیٹی لیور اور جینیٹک بیماری کو بھی شفایاب کر سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر عثمان غنی سے نابینا اور گونگے بہروں نے بھی شفا پائی جسے میڈیا پر کافی پذیرائی دی گئی۔ ڈاکٹر علی محمد کے ہاتھوں ہزاروں جنیٹک ڈس آرڈرکے مریض درست ہوئے جبکہ ڈاکٹر وقار احمد بھٹہ نے انفرٹیلیٹی کے مریضوں سے دعائیں سمیٹیں میں بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ گزشتہ بیس سال سے فری کیمس کے ذریعے عوامی خدمت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہوں جس میں ڈاکٹر نعیم مغل، ڈاکٹرامتیاز گوندل،ڈاکٹر جاوید قریشی اور ڈاکٹرمحمد اعظم کی کاوشیں قابل داد ہیں۔ اس پریکٹس کو فروغ دینے اور اس کے ارد گرد موجود کسی بھی خرافات یا غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مزید تعلیم اور بیداری کی مہمات کی ضرورت ہے۔بعض ہومیوپیتھی ادوایات روایتی ایلوپیتھک ادویات سے زیادہ مہنگی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل رسائی ہے۔ زیادہ سستی اور قابل رسائی ہومیوپیتھک علاج کی ضرورت ہے تاکہ انہیں عام لوگوں تک وسیع پیمانے پر دستیاب کیا جا سکے۔یہ ذمہ داری ادویہ ساز کمپنیوں اور حکومت کی ہے۔اگر ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے اور ہمسایہ ملکوں سے سستی امپورٹ کی اجازت دی جائے تو مہنگی ترین ادوایات سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔اگر نیت یہ ہو کہ عام پاکستانی کو سستی اور موثر دوائی مہیا کرنی ہے تو معاشی مشکل آڑے نہیں آسکتی۔کمپنیوں کو اپنا منافع کم کرنا چاہیے۔ایک منافع اللہ کے ہاں سے بھی ملے گا۔انسانوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔آئیے اس نفع بخش کاروبار کی طرف قدم بڑھائیں!

ای پیپر دی نیشن