ہراسانی اور گھریلو تشدد پر قانون کیا کہتا ہے؟

Mar 08, 2023

عیشہ پیرزادہ


ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر عورت کی حوصلہ افزائی ضروری
نائب صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ربیعہ باجوہ سے خصوصی گفتگو

ہراسگی کی شکار خاتون سب سے پہلے آس پاس موجودلوگوں کو گواہ بنائے

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com

عورت کو نہ صرف ماں،بیوی اور بیٹی کے روپ میں سراہنا چاہیے بلکہ ورکنگ وومن کے طور پر بھی اس کی ذات تسلیم کرنا اور اس کی عزت وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ تصور عام پایا جاتا ہے کہ وورکنگ وومن کی نسبت گھرمیں رہنے والی خاتون زیادہ محفوظ ہے۔ افسوس کہ بس یہ ایک تصور ہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ گھر میں رہنے والی خاتون بھی محفوظ نہیں۔گھریلو تشدد اور ہراسانی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ الارمنگ صورتحال ہے، جس سے اگربروقت نہ نمٹا گیا تو معاشرہ مزید پستی کی جانب دھکیل دیا جائے گا۔راہ چلتی خاتون ،دفاتر اور فیکٹریوں اور بھٹوں پر کام کرنے والی عورت ہو‘ اسے جنس مخالف کی جانب سے   ہراسانی کا سامنا ہے۔
 دفاتر یا کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ کا قانون سنہ 2010 میں پاس کیا گیا تھا تاہم وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قانون میں سقم سامنے آ رہے تھے اور تشریح کے اعتبار سے ترامیم کی ضرورت پیش آ رہی تھی۔ یہی وجہ کہ گزشتہ سال اس قانون میں ترمیم کی گئی۔
 لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نو منتخب نائب صدر ربیعہ باجوہ جنھیں خواتین سے متعلق مسائل پر قانونی عبور حاصل ہے سے نوائے وقت نے پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ دا ورک پلیس امنڈمنٹ بل 2022 کے مئوثر ہونے پر بات کی تو انھوں کہا کہ بنیادی طور پر اس قانون کا مقصد ایسی تمام خواتین جو دفاتر اور بھٹوں پر کام کرتی ہیں کو امپاور کرنا ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس قانون کا اس طرح فائدہ نہیں ہو رہا جیسا ہونا چاہیے تھا۔اس قانون میں کچھ خامیاں ہیں جو اس قانون کو غیر مئو ثر بنا رہی ہیں۔
اوّل یہ کہ ایسی خواتین جنھیں ہراسانی کا سامنا ہو،جب شکایت درج کرواتی ہیں تو ان کے پاس شواہد نہیں ہوتے، ٹھوس شواہد اور گواہی نہ ہو تو ملزم کو سزا مشکل سے ہی ملتی ہے۔ شواہد اور گواہی کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کیونکہ اکثر دفاتر میں کام کرنے والی ایسی خواتین جو امپاور دکھائی دیتی ہیں اکثر جھوٹی رپورٹ درج کروا دیتی ہیں۔ ایسی رپورٹس تحقیقات کے بعد خارج ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شکایت جھوٹ پر مبنی نہ ہو ،قانون شواہد مانگتا ہے۔ اب عام عورت جو بھٹوں اور فیکٹریز  میںمزدوری کرتی ہے وہ اتنی سادی ہے کہ آس پاس کے لوگوں کو بھی نہیں بتاتی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور جب شکایت درج کروانے جاتی ہیں تو ان کے پاس ثبوت نہیں ہوتا۔
 لہذا اگر کسی خاتون کے ساتھ کوئی ہراسمنٹ کا واقعہ ہو تو اسے چاہیے کہ سب سے پہلے آس پاس موجود لوگوں کو بتائے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے افراد جو عینی شاہد ہوں انھیں بھی گواہی سے گزیز نہیں کرنا چاہیے۔ تاکہ اس قانون کا عام عورت کو بھی فائدہ ملے۔
پاکستان میں گھریلو تشدد معاشرتی اور صحت عامہ کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔اس کے علاوہ گھریلو تشدد بھی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال 5000 خواتین ہلاک جبکہ دیگر ہزاروں شدید زخمی یا معذور ہوجاتی ہیں۔گھریلو تشدد پر بات کرتے ہوئے ربیعہ باجوہ  نے کہا کہ گھریلو تشدد کی مختلف شکلیں ہیں۔بنیادی طور پر جسمانی تشدد سب سے زیادہ عام ہے۔اس کے علاوہ عورت کو نفسیاتی ٹارچر، اور جذباتی دبائو کاشکار کیا جاتا ہے۔معاشی طور پر عورت کا جو استحصال ہے وہ بھی تشدد کی ایک قسم ہے۔سوائے جسمانی تشدد،مندرجہ بالا یہ دو ٹارچر ہیں ج نظر نہیں آتے لیکن ان کی وجہ سے عورت گھٹن زدہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور رہتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ صحت مند سماج کی بنیاد نہیں رکھ پاتی۔
ہمارے ہاں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون موجود ہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس کا عام عورت کو کتنا فائدہ مل رہا ہے۔ان میں سے ایک پاکستان پینل کورٹ ہے۔ جس میں خاتون خود پر ہونے والے تشدد کے خلاف ایف آئی آر درج کرواسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016 ہے۔یہ ایک اچھی قانون سازی ہے جس کے ذریعے ایسے مرد کو جو عورت پر تشدد کا مرتکب ہو اسے ایسا کڑا پہنایا جا سکتا ہے تاکہ اسے مانیٹر کیا جاسکے۔یعنی بنیادی طور پر یہ مرد کو ٹریک کرنے کا سسٹم ہے۔ اس قانون کے تحت عورت کو جو تحفظ ملتا ہے اس میں عدالت  ایسا آرڈر جاری کر سکتی ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہ ہوجائے مرد اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتا جہاں عورت رہ رہی ہو۔اس کا مقصد یہ ہے کہ شکایت کنندہ خاتون کو کوئی خوف زدہ ک نہ کر ے۔ اس کے علاوہ ایک آرڈر عدالت یہ بھی دے سکتی ہے کہ جب تک کیس چل رہا ہے  عورت کی معاشی ضروریات کے لیے مرد اسے خرچہ دے۔
اکثر خواتین ایسی بھی ہیں جو خود پر ہوئے تشدد  کی شکایت درج نہیں کرواتیں۔اور اگر شکایت درج کروا بھی دیں تو کسی وجہ کے تحت شکایت واپس بھی لے لیتی ہیں۔اس کے پیچھے اہم وجہ معاشرتی دبائو ہے۔ لوگوں کی باتیں بھی عورت کو ستاتی ہیں کہ طلاق کی صورت میں بچوں کی تنہا کفالت کیسے کرو گی۔ مرد کے بناء اکیلی عورت کو معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ،اس قسم کے کئی سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔دیہی علاقوں میں رہائش پذیر خواتین میں آگہی کا فقدان ہے۔خاندان کی سپورٹ نہیں ہوتی،عدالت آنے کے لیے شہر آنا پڑتا ہے جو کہ ان کے لیے آسان نہیں۔برادری کا خوف الگ رہتا ہے۔لہذا  ایسی خواتین اگر قانون کے دروازے تک آبھی جائیں تو انھیں کیس نہیں چھوڑنا چاہیے۔ معاشرہ ایسی خواتین جو ظلم کے خلاف آواز بلند کریں کی ہمت بنے تو وومن امپاور منٹ یقینی ہے۔’’وومن امپاورمنٹ‘‘ کے درست معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دو لفظ کسی کی غیرت کو نہیں للکارتے۔

مزیدخبریں