رانافرحان اسلم
ranafarhan.reporter@gmail.com
مملکت خداداد اسلام کے نام پر وجود میں آئی اور اسلامی اقدار ہماری پہچان ہیں گذشتہ چند سالوں سے خواتین کے حقوق پر کام کرنیوالی تنظیموںکی جانب سے خواتین کے حقوق کیلئے ایک انوکھا نعرہ ''میرا جسم میری مرضی''سامنے آیا جس پر کافی تنقید ہوئی عورت مارچ کے دوران قابل اعتراض پلے کارڈز اور ان پر درج نعروں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا بلا شبہ پاکستان میں خواتین کو حقوق کی فراہمی کیلئے ریاستی سطح پر بے انتہا کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میںخواتین کیساتھ زیادتی کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خواتین سڑکوں پر نکل کر اسلامی معاشرے کی روایات اور اخلاقیات کو پامال کریں۔ ہمارے معاشرے اور سماجی اقدار میں عورت مارچ اور اس میں لگائے جانیوالے اس قسم کے نعروں کی ہر گز گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ ہمارا مذہب اس چیز کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں دین معاشرت اور اخلاقیات سب اصول بتلا دیئے گئے ہیں اور اسے دین فطرت کہا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی مکمل راہنمائی موجود ہے اسلام سے قبل بچیوں کو پیدائش کیساتھ ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا لیکن اسلام کے آتے ہی ان روایات کو دفن کردیا گیا اسلام نے خواتین بالخصوص بیٹی بہن بیوی ماں سب کے حقوق کو نا صرف بیان کیا بلکہ انکا نفاذ بھی کیا گذشتہ چند سالوں سے اسلام آباد لاہور کراچی اور دیگر بڑے شہروں میںمارچ کے مہینے میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کا سلسلہ شروع ہواجس میں قابل اعتراض نعرے اورپلے کارڈز اٹھا کر خواتین کی نمائندگی کی کوشش کی گئی تاہم پاکستانی معاشرے میں اسکی سختی سے مذمت کی گئی بلکہ اسے روکنے کیلئے عدلیہ سے بھی رجو ع کیا گیا اسی سلسلہ میں اسلام آباد میںحقوق نسواں پر کام کرنیوالی تنظیموں کی نمائندہ خواتین نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں معروف سماجی کارکن فرزانہ باری ،ایمان مزاری ایڈووکیٹ اور دیگر نے شرکت کی ۔خواتین کے عالمی دن اور بالخصوص عورت مارچ کے حوالے سے ''روزنامہ نوائے وقت ''کیساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا ہے کہ خواتین کا استحصال ہو رہا ہے ریپ زیادتی تیزاب گردی تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں لیکن خواتین کے تحفظ کیلئے قابل ذکر اقدامات نہیں ہو رہے ہیں فرزانہ باری نے کہا ہے کہ جب میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا تو ہم نے اسے اون کیا اور کوشش کی کہ اسکی وضاحت بھی کردیںلیکن اس نعرے سے سماجی سطح پر لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی عورت کو اسکے جسم پر مکمل اختیار حاصل ہے قبر میں بھی عورت اپنے ہی جسم کیساتھ جائیگی ہر انسان کی عزت اسکا کرداراسکی اپنی ذمہ دارای ہے اس حوالے سے کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ پدر شاہی دکھائے عوت مارچ معاشرے میں عورت کو محفوظ بنانے کیلئے ہے تاکہ عورت اپنے حقوق اور وجود کو محفوظ بنا سکے فرزانہ باری نے کہا کہ عورت مارچ یا اس سے منسلک نعرے کا ہرگز مطلب نہیں کہ عورت برا فعل پسند کرتی ہے یا عریانی چاہتی ہے یہ معاشرے کی پراگندہ سوچ ہے۔
جماعت اسلامی خواتین ونگ شمالی پنجاب کی ناظمہ ثمینہ اور ناظمہ ضلع اسلام آبادنصرت ناہید نے کہا ہے کہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے خواتین کو جوحقوق ومقام دیاخواتین اس کیلئے آج بھی سرگرداں نظر آتی ہیںانہوں نے کہا کہ خواتین کو صحت، تعلیم، وراثت اور معاشرتی تحفظ جیسے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے بجائے ایسے مطالبات سے روشناس کرایا جا رہا ہے جو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی اور مسائل کے حل میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ خواتین کو بہتر صحت تعلیم اور کام کرنے کی جگہ پر محفوظ ماحول کی فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور ان کے لیے فوری اور سستے انصاف کو یقینی بنائے انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ امن وامان کی ابتر صورتحال نے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے حالات کو مزید گھمبیر بنادیا ہے اور جب مہنگائی روزبروز بڑھتی جارہی ہے اور خواتین کیلئے گھر چلانا بہت مشکل ہوتاجارہاہے اور جب مسائل میں خواتین گھر والوں کا پیٹ بھرنے اورمعاشی مسائل کے حل کیلئے گھر سے نکلتی ہیں تواس کی وجہ سے نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں جس میں الگ ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا، بچوں کی تعلیم تربیت کے حوالے سے توجہ کا فقدان، کام کی جگہ پر محفوظ ماحول کا نہ ہونا جیسے مسائل عورت کے لئے زندگی عذاب بنادیتے ہیںحلقہ خواتین جماعت اسلامی اسلام آباد کی ناظمہ نصرت ناہید نے کہا کہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے عورتوں کے حقوق کا محفوظ ہونا بے حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ عورت ایک مستحکم معاشرے کی معمار ہوتی ہے،کیونکہ ہر انسان ایک عورت کی گود سے پروان چڑھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام نے عورت کو حقوق اور تحفظ دیا۔اس پر کوئی بھاری بوجھ نہیں ڈالا جو ماں کی حیثیت سے نازک ذمہ داری کی ادائیگی میں رکاوٹ بنے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات مہیا کرے اور ورکنگ خواتین کے لیے بھی ڈیوٹیز کو آسان بنایا جائے تاکہ وہ اپنی اہم ذمہ داری کو بہتر طور پر پورا کر سکیں۔