( خنساءسعید )
نسلِ انسانی کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے۔انسانیت کی بنیادیں ڈالی جا رہی ہیں ۔جہان رنگ و بو معرض ِ وجود میں آنے کو ہے۔خدا شناسی کا عمل شروع ہے ۔ ایک طرف آدم علیہ السلام کی ضو کو خود بخشا جا رہا ہے۔آدم علیہ السلام تکمیل کو پہنچتے ہیں انہیں علم بخشاجاتا ہے عزت بخشی جاتی ہے۔ تو دوسری طرف آدم علیہ السلام کو تخلیق کرنے کے بعد حوا علیہا السلام کو تخلیق کیا جاتا ہے۔ان دونوں کی تخلیق کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ ارتقائے حیات مرد اور عورت کے بغیر نامکمل ہے۔ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے دونوں کا وجود ہی ناگریز ہے۔مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، کہانی نت نئے موڑ کاٹتی چلی جاتی ہے، یہ موڑ کہیں صدیوں پہلے عورت کو عزت و تکریم سے تخت و تاج عطا کرتے ہیں اور کہیں یہ موڑ وہ ہی تخت و تاج چھین کر مسلسل عورت کا استحصال ہوتا دکھاتے ہیں۔ یہ ظلم کی چکی میں پستی نظر آتی ہے۔ معاشرہ ترقی کرتا گیا، عورت کو لے کر کچھ نظریات کچھ خیالات دقیانوس ہوتے چلے گئے۔ ان ہی کچھ دقیانوسی نظریات نے عورت سے ا±س کے کردار کی مضبوطی، ا±س کی آزادی ،ا±س کے خواب، ا±س کی عزت ،توقیر ،آرام سکون یہاں تک کہ ا±س کے سوچنے کا انداز بھی چھین لیا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ عورت کا استحصال ہونے لگا ، یہ نا حل ہونے والے مسائل میں گھیرتی ہی چلی گئی۔وہ سارے حقوق جو اسلام نے عورت کو خوشحال زندگی گزارنے کے لیے دیے وہ معاشرے کے کچھ جلادی کرداروں نے چھین لیے اور آج اس ترقی یافتہ کہلائے جانے والے دور میں جہاں ایک طرف تو بہت سی عورتیں محض عورت ہونے کے جرم میں ہر روز اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہیں تو دوسری طرف اپنے سلب کیے جانے والے حقوق اپنے مسائل کے حل کے لیے معاشرے کی طرف پر امید نظروں سے دیکھتی ہیں۔
ایسے میں عورت کے لیے معاشرے میں سے دو انتہا پسند گروہ ا±ٹھتے ہیں ، ایک ہاتھوں میں بینرز پکڑ کر متنازعہ نعرے لگاتا ہے یہ ہی متنازعہ نعرے میڈیا پر ایک نئی بحث کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ہر کوئی ان نعروں کا مطلب جاننا چاہتا ہے اور عورت کے حقیقی مسائل اس بحث کی نذر ہو جاتے ہیں تو دوسرے گروہ کے باسی جو شاید احمقوں کی جنت کے مکین ہیں کہتے ہیں عورت کا تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں عورت کو کیسے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں ؟ اس طبقے کے نزدیک عورت کے حقوق اس کے مسائل پر بات کرنا در اصل عورت کو مادر پدر آزادی دینا ہے۔ان ہی دو انتہاوں کے درمیان کہیں دور کھڑی ہر روز دھتکار سہتی ، ظلم برداشت کرتی ، درد کا استعارہ بنی ،مظلوم ، مہقور ، لاچار بے بس تیسری عورت آنسو بہاتی رہتی ہے ۔
کسی بھی خاندان یا معاشرے میں عورت کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے۔ اگر عورت جسمانی، ذہنی و فکری اور نفسیاتی طور پر ٹھیک ہوگی تو وہ اپنے بچوں اور سارے خاندان کی صحیح خطوط پر دیکھ بھال اور پرورش، تربیت کرسکے گی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عورتوں کو وہ مقام حاصل نہیں جس کی وہ صحیح طور پر حقدار ہیں یا جو اسلام انہیں عنایت کرتا ہے۔ پیدائش سے لے کر ا?خر تک مختلف حیلوں بہانوں سے اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔یہ استحصال صدیوں سے جاری ہے اور آج سائنس و ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی عورت مظلومیت کی بے رنگ تصویر بنی کھڑ ی ہے۔جاہلا آج بھی بیٹی کی پیدائش پر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت کی طرح گھروں میں بیٹیوں سے آج بھی امتیازی سلوک کیا تھا۔بیٹیوں کو آج بھی تعلیم نہیں دلوائی جاتی ،انہیں کالج یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔موجودہ دور میں بھی لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے ،جہیز نا لانے یا کم لانے کی صورت میں نو بیاہتا پراب بھی گھر کا چولہا اچانک پھٹ جاتا ہے۔آج بھی ساس بہو کو زندہ جلا دیتی ہے ،شوہر آج بھی بیوی کے ٹکڑے کر کے بوری میں بند کر کے ندی نالوں میں پھینک دیتے ہیں۔ وراثت سے اب بھی عورت محروم کر دی جاتی ہے۔ عورت آج بھی انکار کرنے کے جرم کی سزا پاتی ہے کہیں اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے تو کہیں یہ اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن جاتی ہے۔لڑکیاں پید ا کرنے کے جرم میں آج بھی عورت کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے یا شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے۔گھر سے باہر نکلنے والی عورت سڑ کوں پر دفاتر میں پبلک ٹرانسپورٹ میں آج بھی ہراساں کی جاتی ہے۔کاروکاری کے الزام میں اس کو قتل کر دیا جاتا ہے ،ونی ،سوارا کے نا م پر آج بھی زندہ درگور کر دی جاتی ہے۔
بھٹے پر اینٹیں بنانے والی عورت سے لے کر صبح و شام کھیتوں میں محنت مزدوری کرنے والی عورت تک ،کسی بازار کی نکڑ پر اچار یا لہسن کا ٹھیلا لگانے والی عورت سے لے کر سڑک پر جھاڑو لگاتی خاکروب عورت تک ،گھر گھر کا دروازہ بجا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی عورت سے لے کر بسوں میں مسافروں کو کھانا تقسیم کرنے والی عورت تک ،ہمارے گھروں میں ہمارا ہاتھ بٹانے کو آنے والی عورت سے لے کر بڑے شاپنگ مالز ، سپر مارکیٹس ،میں کام کرنے والی سیل گرلز تک،فیکڑیوں میں کام کرنے والی عورتیں ہو یا ہسپتالوں میں ،پرائیوٹ یا نجی سکولز کی اساتذہ عورتیں ہو ں یا بنکوں میں کام کرنے والی عورتیں ہو ں ، قبائلی علاقہ جات میں صحت کے شدید مسائل کا شکار نظر آتی عورتیں، بریسٹ کینسر سے دھیرے دھیرے منہ کے منہ میں جاتیں عورتیں۔ ہر چند کہ موجودہ عورت مختلف انواع میں مختلف مسائل کا شکار نظر آتی ہے جن مسائل کی صحیح معنوں میں نشاندہی کرنا اور ان کو حل کرنا اشد ضروری ہے۔ کیوں کہ معاشی، سماجی اور معاشرتی طور پر مستحکم عورت مستحکم معاشرے کی ضمانت ہے۔ عورتوں کے سیاسی، سماجی، معاشی، قانونی، طبی حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے ہم سب کو بحیثیت مجموعی آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ دیہاتی اور شہری، پڑھی لکھی اور نا خواندہ سندھی پنجابی بلوچی اور خیبر پختون خواہ کی عورت سب مل کر خود اعتمادی اور بہادری سے ملکی ترقی میں اپنا نہایت اہم کردار ادا کر سکیں۔