اتحاد ۔ پاکستان کی سلامتی ۔ ترقی کی باتیں ۔ عزم خوش آئیند ۔ اب شاہرات میدان نہیں ”ایوان“ (جیسے بھی ہیں) تمام قانونی ۔ آئینی ۔ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بننا چاہیں ۔ کِسی کے نزدیک غیر آئینی ۔ کِسی کے نزدیک غیر جمہوری بقول شخصے دھاندلی زدہ ۔ ہر فریق کی اپنی رائے ۔ یہ چلن ہمیشہ سے مروج رہا ہے جو بھی ہے سیاسی حکومتوں کی تشکیل کے بعد تمام اقسام کے مقدمات ختم کر دیں۔ کمیشن ۔ کمیٹی لا یعنی مشق سے گریز بہتر رہے گا ایسا کرنا معاملہ کھوہ کھاتے میں ڈالنے مترادف ہے۔ ماضی سب کی ناکامی کا مضبوط گواہ ہے۔ مفاہمت کا عمل انتقامی سیاسی کاروائیوں کے انسداد کے بغیر ممکن تھا اور نہ ہوگا۔ آئین پر سب یقین رکھتے ہیں مگر مانتا کوئی نہیں۔ اُن شقوں کو تو کوئی بھی نہیں تسلیم کرتا جو اُن کے ”مفادات بینک“ سے متصادم ہوں ۔
چاہے سُنانے کے واسطے مگر ارادی طور پر آپ دُشنام دیں ۔ خواتین کو بُرا بھلا کہیں پھر معذرت کر لیں۔ الفاظ واپس لے لیں ۔ کیا معافی سے دوسرے کو پہنچائی گئی دانستہ تکلیف کی تلافی ممکن ہے ؟؟ یقینا ”دین حنیف“ سراپا عدل ۔ عفو و درگزر ہے ہر گنا ہ کے بعد معافی کی اہمیت ہے پر ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جان بوجھ کر ذلت والی حرکات سے اجتناب کریں ۔ اب ضمیر جاگ جانا چاہیے ۔ کیونکہ یہ شے بھی عارضی ہے تو ”انا“ کیسی ؟؟ ابھی تک تو صرف ”بلوچستان“ سے ”گوادر“ کے معاملہ میں آوازیں بلند ہوئی ہیں ۔ عوامی مسائل ۔ معیشت پر فی الحال عملی اقدمات غائب ہاں البتہ تقاریر موجود ہیں ۔ قوم منتظر ہے ایک بڑے ریلیف کی۔ سیاسی افراتفری روکنے سے بھی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ”گوادر“ تو گھنٹوں میں سمندر بن گیا۔ ایک چرچا تھا اِس کی ترقی کا ۔ پروگرامز کا ۔ اقتصادی سنٹر بننے کی اطلاعت ۔ غلط تو کچھ بھی نہیں ہوا بس پانی میں ڈوب گیا۔ دوسرے طرف سیاسی انقلابات کی آمد ۔ عہدے ۔ حلف ۔ عشائیے ۔ پر تکلف سج دھج۔ پروٹوکول سے لبریز آنیاں جانیاں ۔ دُکھ سب کو ہی تھا بیانات بھی بڑے غمزدہ سننے ۔ پڑھنے کو ملے مگر کام کون آیا ؟؟ وہی جن کو سب ہی ہمیشہ رگیدتے ہیں اور صرف وہ لوگ جن کو اپنے اعمال باعث رخصت ہونا پڑے ۔ ہمیشہ کی طرح ”پاک بحریہ ۔ پاک فوج “کے جوان مدد کے لیے پہنچ گئے ۔ آندھی آئے ۔سیلاب آئے ۔ زلزلہ ۔ حتیٰ کہ برفباری میں پھنسے لوگوں کو بھی اب ”فوج“ ہی ریسکیو کرتی ۔ کھانا فراہم کرتی ہے۔ معمولی سے بارش بھی کھربوں روپے کی مالک حکومت کا پول کھول دیتی ہے۔قارئین ۔ وجہ کیا ہے صرف ایک ہی ”نیت کی خرابی“۔
سندھ میں بالخصوص کراچی میں تو سٹرکیں۔ سیورج سسٹم ۔ (گندگی کے ڈھیر) پہلے ہی عضو معطل مثل تھا چند دنوں کی بارشوں نے نظام کی بوسیدگی پر مکمل نااہل ترین کی مہر ثبت کر دی۔ گندگی کے ڈھیر اور بڑھ گئے ۔ حال یہ ہے کہ ہلکی سے بارش بھی پوری کارکردگی ڈبو دیتی ہے ۔ کیا سٹرکیں ناکارہ میٹریل سے بنی ہیں۔ پانی کے اخراج کا نظام موجود نہیں ؟؟ کچھ عرصہ سے اہل وطن آسمانی و ارضی آفات کا بیک وقت سامنا کر رہے ہیں۔ آسمانی آفات کا پوری دنیا سامنا کر رہی ہے۔ بارش ہو تو دیکھتے ہی دیکھتے شہر گاو¿ں دریا بن جاتے ہیں۔ زلزلہ ہو تو چشم زدن میں بلند و بالا کنکریٹ عمارتیں ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ آسمانی آفات کا تو زیادہ نقصان ہو بھی جائے تو ”مالک حقیقی“ بہترین متبادل (اگر صبر کیا جائے تو) عطا فرما دیتے ہیں ۔ آسمانوں زمین کے معمولات کا طے شدہ حصہ ہیں کبھی آزمائش کبھی انسانوں کی بدتدبیری ۔ (جنگلات کا بے تحاشا کٹاو¿۔ کرپشن ۔ قبضہ گیری ۔ نا حق قتل و غارت)باعث مصائب اُترتے رہتے ہیں ۔ ایک بدترین سیلاب کے بعد وہی تباہ شدہ ۔ اُجڑی زمینیں اگلے سال پہلے سے زیادہ پیداوار دیتی ہیں ۔ ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپوزیشن کا مقابلہ جوابی تقاریر کے ساتھ ضرور کریں مگر تنقید کا صحیح جواب ”کارکردگی“ ہے عوام کی خدمت کا ریکارڈ عمل کے میدان میں توڑ دیں ۔
یہ ریکارڈ بھی عجیب چیز ہے کبھی سیلاب ۔ کبھی برفباری کبھی گرمی یہاں مہنگائی کا ذکر نہیں کیونکہ مہنگائی بلا مقابلہ جیت رہی ہے کوئی مد مقابل نہیں کرپشن کا بھی قطعاً ذکر نہیں معاملہ کرپشن بمقابلہ کرپشن ہے اسلئیے اِس کی ہار کا بھی دُور دُور تک کوئی امکان نہیں ہاں تقدیر اور تدبیر کا مالک ہر چیز پر کامل اختیار رکھتا ہے اُس ”ذات پاک“ کی اپنی عدالت ۔ اپنی کتاب ۔ اپنے سی سی ٹی وی کیمرے ہیں ایسے کیمرے جن کا نہ کوئی رُخ موڑ سکتا ہے نہ ریکارڈ میں ردوبدل کی حیثیت رکھتا ہے کِسی کی کوئی اوقات ہی نہیں سوائے ”اعمال صالحہ “کے ۔اب آتے ہیں دوسری طرف ۔ وائے نصیب ہماری قسمت میں ارضی آفات کا وافر حصہ لکھا گیا ہے یہ وہ آفات ہیں جو کم یا معدوم ہونے کی بجائے فزوں تر ہوتی جا رہیں ہیں ۔
”قدرتی آفت“ واقعی کِسی کے بس کی بات نہیں تو نقصانات کا مکمل تدارک یا تلافی تو نا ممکن ہے ۔البتہ یہ ضروری ہے کہ اب امداد ہے یا چیک ادائیگی کا مرحلہ یا مفت راشن کی فراہمی عوام کی عزت نفس کو مجروع کرنے کا ”75سالہ“ ریکارڈ توڑ دیں۔ سارا سارا دن لائنوں میں کھڑا کرنا یا کُرسیوں پر بٹھا کر گھنٹوں طویل تقریریں جن کی ”الف ۔ ب“ بھی دُکھی سامعین کو سمجھ نہ آئے ۔ لا حاصل مشق ہے اِس سے جہاں عوام میں بیزاری پیدا ہوتی ہے تو وہاں برقیاتی چینلز پر دیکھنے والے بھی بدمزہ ہوتے ہیں ۔ ان تقاریب کے انعقاد اور آمدورفت پر اٹھنے والے مصارف کو عوامی امداد میں شامل کر دیا کریں۔ نظام ایسا ہو کہ ہر شہر ۔ ہر صوبے ۔ ہر گاو¿ں کا انچارج خودبخود روبہ عمل ہو جائے۔ وفاق صوبوں کو بن مانگے اُن کا حصہ منتقل کرنے کے نظام کو سہل ۔ فوری بنیاد پر استوار کر دے ۔ فرائض کی ادائیگی نظام کی شفافیت میں زیادہ مناسب ۔ مبنی بر انصاف ہے۔ بطور پاکستانی میرا اِس ملک پر حقوق کی نسبت زیادہ فرائض عائد ہوتے ہیں کیونکہ ملک خصوصی حالات سے گزر رہا ہے اِسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
”ریکارڈ توڑ دیں “
Mar 08, 2024