چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی وسیع تر بنچ نے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں انہیں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت اور اس سزا کیخلاف بیگم نصرت بھٹو کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کے فیصلہ کیخلاف 2011ءمیں دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس پر گزشتہ روز اپنی رائے سنا دی۔ فاضل بنچ نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے سے اس بنیاد پر اتفاق نہیں کیا کہ اس سزا کیخلاف اپیل بھی عدالت عظمیٰ میں خارج ہو چکی ہے جبکہ عدالتی فیصلے کو تبدیل کرنے کیلئے آئین میں کوئی طریقہ کار بھی موجود نہیں تاہم عدالت کی رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف قتل کے اس مقدمہ میں اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کیس بنیادی آئینی حقوق اور شفاف ٹرائل کے مطابق نہیں چلایا گیا۔ اس کیس میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں ملا۔ فاضل بنچ کی جانب سے یہ رائے متفقہ طور پر جاری کی گئی۔ یہ صدارتی ریفرنس 2008ءکے انتخابات کے نتیجہ میں تشکیل پانے والی پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جسے بعد میں آنیوالی حکومتوں کی جانب سے واپس نہ لیا گیا جبکہ اب سپریم کورٹ کی جانب سے 13 سال بعد اس ریفرنس پر اپنی رائے جاری کی گئی ہے۔ فاضل وسیع تر بنچ نے اپنی متفقہ رائے میں قرار دیا کہ ججز قانون کے مطابق ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کرنے کے پابند ہیں۔ ہم ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ عدلیہ میں خوداحتسابی ہونی چاہیے۔ ماضی کی غلطیوں کو درست کئے بغیر آگے نہیں چل سکتے۔ فاضل بنچ نے قرار دیا کہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ بطور جج ہم بلاخوف وخطر‘ بغیر کسی رغبت اور لگاﺅ اور بدنیتی سے بالاتر ہو کرقانون کے مطابق بلاتفریق فیصلے کریں۔ عدالتی تاریخ میں کچھ ایسے مقدمات بھی ہوئے جن سے عوامی رائے نے جنم لیا کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خوف اور لالچ کا شکار ہے۔ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرکے خوداحتسابی کرنی ہے۔ ہم اس وقت تک اپنی درستگی کرکے آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک ماضی کی غلطیوں کو تسلیم نہ کریں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فاضل بنچ کی یہ رائے پڑھ کر سنائی تو کمرہ عدالت میں موجود بھٹو مرحوم کے نواسے اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ ہو گئے اور بار بار رومال سے اپنے آنسو صاف کرتے رہے۔ بعدازاں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج 44 برس بعد تاریخ درست ہونے جا رہی ہے۔ دریں اثناءوزیراعظم میاں شہباز شریف نے سپریم کورٹ کی اس رائے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو قتل کیس میں سنگین غلطی کا اعتراف ایک نئی روایت اور عدالت کا درست اقدام ہے۔ انکے بقول تلخیوں کے خاتمہ سے ہی ترقی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی تو اب یقیناً واپس نہیں آسکتی جو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے پھانسی کی سزا پا کر آسودہ خاک ہو چکے ہیں تاہم یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ انکی سزا کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ نے اپنی رائے صادر کرتے ہوئے متفقہ طور پر اس فیصلے میں سرزد ہونیوالی اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور خوداحتسابی کے عمل کو سابقہ غلطیوں کے ازالہ کا درست اقدام قرار دیا۔ پانچ جولائی 1977ءکو جنرل ضیاءالحق کے ماورائے آئین اقدام کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی بساط الٹائے جانے کے بعد درحقیقت اس کیس کی بنیاد ہی انتقامی سیاست پر رکھی گئی تھی چنانچہ یہ کیس بادی النظر میں انصاف کا نہیں بلکہ ذاتی انا اور انتقام کا کیس بن گیا جس کے بارے میں خود جنرل ضیاءالحق اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے تھے کہ قبر ایک ہے اور لاشیں دو ہیں۔ وہ خود اور ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ اس قبر میں یا بھٹو جائیں گے یا وہ خود۔ یقیناً اسی تناظر میں انہوں نے نواب محمد خان کے قتل کے 1975ءمیں دائر شدہ اور داخل دفتر ہوئے کیس کی فائل نکلوائی اور لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کے ذریعے ہائیکورٹ کو ٹرائل کورٹ کا درجہ دلوا کر ٹرائل کا خصوصی اہتمام کرایا۔ اس طرح اس کیس کی بنیاد ہی اناانصافی پر رکھی گئی کیونکہ ملزم کو اپیل کے ایک قانونی حق سے پہلے ہی محروم کر دیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں ملکی اور غیرملکی عدالتی اور قانونی حلقوں میں اس کیس کے فیصلہ کو میرٹ اور انصاف کی بنیاد پر صادر ہوئے فیصلہ کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی عدلیہ میں یہ کیس بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ اس کیس کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق حسین کا ذاتی عناد بھی بادی النظر میں غالب رہا جبکہ اس کیس میں مرحوم بھٹو کو منظر سے ہٹانے سے متعلق جنرل ضیاءالحق کی خواہش کا بھی عمل دخل رہا۔ اور یہی معاملہ پھر سپریم کورٹ میں بھٹو مرحوم کی سزا کیخلاف دائر ہونیوالی اپیل میں بھی درپیش ہوا۔ اس اپیل کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے بنچ کے ایک فاضل رکن جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے بھی جو بعدازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر بھی فائز ہوئے‘ ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں اپیل کی سماعت کے دوران عدالت پر پڑنے والے مبینہ دباﺅکا تذکرہ کیا اور اعتراف کیا کہ اس کیس میں بھٹو مرحوم کی موت کی سزا کو قید کی سزا میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ اسی حوالے سے سری لنکا کے ایک سابق چیف جسٹس راجا رتنم نے اپنی کتاب میں اس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے اسے عدالتی قتل سے تعبیر کیا تھا۔ یہ سارے معاملات سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ کے روبرو صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران زیرغور آئے اور فاضل بنچ نے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لے کر اپنی رائے قائم کی ہے جو اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ یہ کیس عدلیہ سمیت ملک کے تمام ریاستی‘ انتظامی اداروں کی جانب سے کسی نہ کسی بنیاد پر کی جانیوالی غلطیوں پر اپنے احتساب کا عمل جاری کرنے کا نکتہ آغاز بن گیا ہے۔ اگر ہر ادارہ اور ذمہ دار شخصیت ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ملک اور سسٹم کی بہتری کی خاطر خود احتسابی کے راستے پر عمل پیرا ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ حکومتی‘ انتظامی معاملات اور اختیارات کے استعمال کے حوالے سے بیرونی دنیا میں خراب ہوا ہمارا تشخص بہتر بنانے اور اپنی صفیں درست کرنے کا موقع نہ ملے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ خود احتسابی کے راستے پر گامزن ہے اور بھٹو کیس سے پہلے جنرل پرویزمشرف کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس میں خصوصی عدالت کی جانب سے آئین سے غداری کے کیس میں دی گئی سزائے موت بھی انکی زندگی کے بعد بحال کر چکی ہے جو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی پر مشتمل عدالت عالیہ کے ایک سنگل بنچ نے کالعدم قرار دے دی تھی۔ خوداحتسابی کے اس عمل سے یقینی طور پر انصاف کی عملداری میں میرٹ اور شفافیت کا بول بالا ہو گا، آئندہ کیلئے کسی نہ کسی حوالے سے ہونیوالی ناانصافیوں کے راستے مسدود ہو جائیں گے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا۔ اب منتخب پارلیمنٹ اور دوسرے آئینی اور قانونی اداروں کو بھی خود احتسابی کے عمل کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے تاکہ ہمارا سسٹم آئے روز کے لاحق ہونیوالے خطرات سے بھی محفوظ ہو سکے۔