اسلام آباد(اعظم گِل/خصوصی رپورٹر/ نوائے وقت رپورٹ) سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے دیا ہے ،سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو برطرف کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اپنی رائے صدر مملکت کو بھجوا دی ہے ۔سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے برطرف کرنے کی سفارش بھی کی ہے ۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی رائے منظوری کیلئے صدر مملکت کو بھجوا دی ہے ۔سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے رول 5 میں ترمیم کر دی، رول پانچ میں ترمیم کے بعد الزامات پر وضاحت دینے کا حق ججز کو دیدیا گیا۔ جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ججز اگر کوئی وضاحت جاری کریں تو اسے شہرت حاصل کرنے کیلئے کیا گیا اقدام قرار نہیں دیا جائے گا، سپریم جوڈیشل کونسل نے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج کو نوٹس جاری کر دیا ہے، کونسل میں دائر شکایت پر ہائی کورٹ کے جج سے 14 روز میں جواب بھی طلب کر لیا گیا۔اعلامیہ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے مظاہر علی اکبرنقوی کے خلاف 9 شکایات کا جائزہ لیا، ان شکایات کا جائزہ آئین کیآرٹیکل 206 کی شق (6) کے تحت لیا گیا، مظاہر نقوی ان شکایات میں مس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے، واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیرِسماعت تھی جس میں ان پر اثاثوں سے متعلق الزامات تھے، اس کے علاوہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔گزشتہ ہفتے سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف شکایت پر کارروائی مکمل کی تھی۔ دوسری طرف جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی نے کونسل کی رائے کو چیلنج کرنیکا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یکطرفہ کارروائی تھی جس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، قانون جج کے استعفیٰ دینے کے بعد انکوائری جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا، صدر نے استعفیٰ تسلیم کر لیا جسے سرکاری گزٹ میں شائع کردیا گیا۔ مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کونسل استعفے کو عہدے سے برطرف کرنے میں کیسے تبدیل کرسکتی ہے؟ ، شکایات درج کرانے سے پہلے ہی کئی کونسل ممبران نے میرے خلاف قبل ازوقت کارروائی کا مطالبہ کیا، میں نے کون سامس کنڈکٹ کیاہے؟عہدے کے غلط استعمال کے شواہدکہاں ہیں؟ یہ ریکارڈ کی بات ہیکہ تمام گواہان نے میرے حق میں گواہی دی۔مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کریں گے اور تمام کرداروں کو بے نقاب کریں گے، ہم متعلقہ قانونی فورم سے رجوع کریں گے اور میڈیا کو آگاہ کریں گے۔ چیئرمین جوڈیشل کونسل اور جسٹس سردار طارق اور جسٹس منصور علی شاہ نے میرے خلاف کارروائی کے لیے خط لکھا، نصاف، شفاف ٹرائل اور طے شدہ طریقہ کار کے تحت انہیں کونسل کارروائی سے الگ ہوجانا چاہیے تھا، میں نے کونسل کے سامنے 26 درخواستیں جمع کرائیں کسی کا بھی جواب نہ دیا گیا۔ میرے خلاف شکایات سیاسی نوعیت کی تھی ، شکایت کرنے والوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔مظاہر نقوی کے مطابق یہ سب 18 مئی 2022 کے نوٹ کے بعد شروع ہوا، میں نے کہا تھا کہ ن لیگ کرپشن کیسز میں تفتیشی افسران کے تبادلے، تعیناتیاں اور نئی تقرریاں مشکوک تھیں، جب مسلم لیگ ن کا میڈیا ونگ میرے خلاف مہم چلا رہا تھا تو اسے روکا کیوں نہ گیا؟ چیئرمین جوڈیشل کونسل نے کارروائی کے دوران حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا، چیئرمین جوڈیشل کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس امیر بھٹی کی ریٹائرمنٹ اور جسٹس نعیم افغان کی سپریم کورٹ تقرری سے پہلے کونسل کی کارروائی مکمل کی۔