محترمہ بے نظیر بھٹو سے بطور صحافی جو رشتہ استوار ہوا اس کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری میرا احترام کرتے ہیں۔ عمر کے فرق کی وجہ سے ہم دونوں کے مابین بے تکلفی ممکن نہیں۔ موصوف کے ساتھ تنہائی میں ہوئی چند ملاقاتوں کے بعد مگر میں اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ موصوف کئی حوالوں سے وطن عزیز کی موجودہ سیاست کے لئے ان فٹ ہیں۔بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ نیک طینت انسان ہیں اور دل ان کا بے رحم نہیں۔شاید اسی باعث جب بدھ کے روز چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے آج سے چوالیس سال قبل ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے الزام میں چلائے مقدمے کو ’’غیر منصفانہ‘‘ قرار دیا تو بلاول بھٹو زرداری کی آنکھوں سے بھری عدالت میں بے ساختہ آنسو چھلک پڑے۔ بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بدھ کے روز آئے فیصلے کو پاکستان کی تاریخ درست کرنے کی جانب اہم پیش قدمی بھی قرار دیا۔
میرا جھکی اور بے اطمینان دل مگر بدھ کے روز آئے فیصلے سے ہرگز خوش نہیں ہوا۔ دماغ بلکہ ہذیانی کیفیت سے مغلوب ہوکر بے تحاشہ سوالات اٹھانا شروع ہوگیا۔ جی کو بہلانے کے لئے خیال آیاکہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ بدھ کے روز آئے فیصلے سے مطمئن ہے تو میں کس حیثیت میں اس کی بابت مضطرب محسوس کئے چلاجارہا ہوں۔ ’’توں کون؟ میں چاچا خواہ مخواہ‘‘ والا رویہ۔
چند لمحے سوچنے کے بعد مگر بضد ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے کوئی خونی رشتہ نہ ہونے کے باوجود میں پاکستان کا شہری بھی تو ہوں۔کسی مہذب ریاست کے شہری کے لئے بے تحاشہ فرائض کی پابندی کے بدلے چند حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ انصاف کا حصول ان حقوق میں سرفہرست شمار ہوتا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے وارثوں کو 1988ء 1997ء اور 2008ء میں تین بار وفاقی حکومتوں کی قیادت کے باوجود چوالیس برس بعد ’’انصاف‘‘ملتا ہے تو میرے اور آپ جیسے بے وسیلہ شہری کی وطن عزیز میں کیا حیثیت ہے۔
آئین اور قانون کی باریکیوں کو فی الوقت بھول جاتے ہیں۔فقط ایک عام اور تقریباََ جاہل پاکستانی کی حیثیت سے بدھ کے روز آئے فیصلے کا جائزہ لیتے ہیں۔مذکورہ فیصلہ اعتراف کرتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو Fair Trialنصیب نہیں ہوا۔فیئر ٹرائل کا میسر نہ ہونا میری ناقص رائے میں ہرگز یہ طے نہیں کررہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ’’انصاف‘‘ نہیں ملا تھا۔ اس امر پر بھی یہ فیصلہ سینہ پھلاکر اصرار نہیں کررہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اس قتل کے ذمہ دار نہیں تھے جس کی وجہ سے بالآخر انہیں 4اپریل 1979ء کے روز پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا۔اعتراف بنیادی طورپر یہ ہوا ہے کہ کسی جرم کی تفتیش اور بعدازاں انصاف کی فراہمی کیلئے ہمارے قوانین نے جو قواعد وضواط طے کررکھے ہیں انہیں ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔درحقیقت ناک کو سیدھا پکڑیں یاہاتھ گھما کر۔ چوالیس برس گزرجانے کے بعد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے یہ طے کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لگے قتل کے الزام کی قواعد وضوابط کے مطابق تفتیش نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد عدالتی کارروائی کے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بھٹو کو سزا بھی سنادی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو جیسی قدآور شخصیت ہو یا میرے اور آپ جیسا بے وسیلہ آدمی۔ پاکستان کے کسی بھی شہری کا ’’ان فیئر ٹرائل‘‘ کے انجام پر پھانسی پر لٹکائے جانا بھی تو ریاست وعدالت کے ہاتھوں قتل کے برابر ہے۔سوال لہٰذا یہ اٹھتا ہے کہ 4اپریل 1979ء کی صبح ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا ذمہ دار کون تھا۔ ذمہ داروں کا تعین کئے بغیر ’’ان فیئرٹرائل‘‘ کے اعتراف کے بعد ’’تاریخ کو درست کرنا‘‘ میری دانست میں محض شاعری ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے لئے انصاف کا حصول ہرگز یقینی نہیں بنائے گی۔
سادہ ترین الفاظ میں مجھے یہ کہنے دیں کہ ان دنوں ہماری قسمتوں کے مالک بنے زمینی خدائوں کو 6مارچ 2024ء بروز بدھ سپریم کورٹ کی جانب سے آیا فیصلہ کسی خوف میں ہرگز مبتلا نہیں کرے گا۔ یہ حقیقت تو تسلیم کرنا ہوگی کہ 1977ء میں حکومت پر قابض ہونے والوں میں سے چند اہم افراد نے باہم مل کر یہ طے کیا ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عاجلانہ عدالتی بندوبست کے ذریعے پھانسی پر لٹکاتے ہوئے ’’عبرت کا نشان‘‘ بنایا جائے۔ وہ تمام کردار جنہوں نے یہ فیصلہ کیا اور اسے بالآخر عملی صورت فراہم کرنا بھی یقینی بنایا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ ہمارے ہاتھوں سزا یا جزا کے قابل نہیں۔معاملہ اللہ کے سپرد ہوچکا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے وارثوں نے اس کے باوجود سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو ان کی بنیادی منشاء یہ تھی کہ تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’’قاتل‘‘ شمار نہ کیا جا ئے۔ تاریخ کو ’’درست‘‘ کرنے کی خواہش تو پوری ہوگئی مگر ’’حال‘‘ کا کیا ہوگا۔ خدارا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتائیں کہ بدھ کے روز آیا فیصلہ آج کے زمینی خدائوں کو اس امر پر مجبور کرے گا کہ وہ کسی بے گناہ شخص کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کے بعد عدالتوں سے سنگین سزائیں سنوانے کے ذریعے’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے سے گریز کریں۔مجھے کامل اعتماد ہے کہ ایک پاکستانی بھی بدھ کے روز آئے فیصلے کے بعد ایسا نہیں سوچ رہا۔
بدھ کے روز آئے فیصلے کو میں ’’تاریخی‘‘ فقط اس صورت گردانتا اگر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت تھوڑی لگن کے بعد کم از کم ان افراد کی نشاندہی بھی کردیتی جنہوں نے جولائی 1977ء کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کی ’’سازش‘‘ (میں جان بوجھ کر منصوبہ نہیں لکھ رہا) تیار کی اور اسے عاجلانہ ضد سے ا نجام تک پہنچایا۔ بدھ کے روز آئے فیصلے کے بعد بلاول بھٹو زرداری یقینا سراٹھاکر دنیا کو یہ بتاسکتے ہیں کہ ان کے نانا کو ’’ان فیئرٹرائل‘‘ کے ذریعے’’قاتل‘‘ ٹھہرادیا گیا تھا۔وہ ایسے سنگین جرم کے ذمہ دار نہیں تھے۔ ’’ان فیئر ٹرائل‘‘ کی وجہ سے بھٹو کی پھانسی بھی تاہم ایک اور نوعیت کا قتل تھی۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے ذمہ دار کون تھے۔ ان کے نام لیتے ہوئے ان کے وارثوں کو شرمندہ کیوں نہیں کیا جارہا اور آج کے زمینی خدائوں کو یہ پیغام بھی کیوں نہیں ملا کہ وہ کسی بے گناہ شہری کو محض ریاستی دبدبہ کی وحشت دکھانے کی خاطر ’’قاتل‘‘ ٹھہراکر پھانسی پر نہیں لٹکاسکتے تاکہ میرے اور آپ جیسے بے وسیلہ شہری خوف کے مارے سرجھکائے حقوق وفرائض سے محروم غلاموں کی طرح طاقت ور اشرافیہ کی من مانیاں برداشت کرتے رہیں۔