انسان کی زندگی مہ و سال سے عبارت ہے، گنتی کے مہ و سال اور مہ و سال ہفتوں سے عبارت ہیں۔ ایک انسان کو زندگی کے کل کتنے ہفتے ملتے ہیں، یہ حساب کوئی خود نہیں لگا سکتا۔ دم نزع کیلکولیٹر استعمال کرنے کا ہوش ہی کہاں، ہاں پسماندگان حاصل جمع نکال سکتے ہیں اور بے چارے ایک ہفتے کی اوقات ہی کیا، ہفتے بھر میں ختم۔ ملاحظہ فرمائیے ہفتے کی داستان حیات یعنی کہ سواغ عمری یعنی کہ بائیو گرافی۔
وہ پیر کو پیدا ہوا،
منگل کو خوش پھرتا رہا،
بدھ کو زیادہ کھا گیا،
جمعرات کو بیمار تھا،
جمعے کو بدتر ہو گیا،
ہفتے کو دم گھٹ کر مرا۔
اتوار کو کچھ بھی نہ تھا۔
ایک یوتھیالے کو یہ سوانح عمری پڑھ کر سنائی تو بھڑک اٹھا، کہنے لگا آپ کو خان کا مذاق اڑانے کی جرأت کیسے ہوئی، بدھ کو زیادہ کھا گیا، بیمار تھا، بدتر ہو گیا اور ا ب کچھ بھی نہیں ہے۔ کیسے کچھ بھی نہیں ہے، ذرا جیل سے نکال کر تو دیکھو!
عرض کیا میرے بھائی میں نے کب مذاق اڑایا، یہ جو کچھ بھی کہا، پون صدی پہلے قیوم نظر مرحوم نے لکھا تھا، تب خان کہاں تھا۔ بولا، نہیں تم نے خان کی حکومت بننے، زیادہ کھانے، عدم اعتماد اور پھر 9 مئی کے بعد کچھ بھی نہ تھا والا ماجرا بیان کیا ہے۔ میں نہیں چھوڑوں گا، جاتا ہوں۔ چنانچہ میں انہیں چھوڑنے باہر تک گیا، چھوڑ کر واپس آیا۔
___
جیل سے نکالنے کی بات کل ہی خان نے پھر کی۔ فرمایا، کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے کی تائید کرتا ہوں۔ 9 مئی کے سارے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔
حسن طلب کے ہزار انداز ہوتے ہیں لیکن :
کہتے ہیں کہ نیازی کا ہے حسن طلب اور۔
اس خیرمقدمی بیان میں حسن طلب مخفی ہے۔ سب ذمہ داروں کو پکڑ لو، مجھے چھوڑ دو۔ حسن طلب کی غزل کا یہی ’’مقطع‘‘ ہے جو لکھا تو نہیں گیا، پڑھا البتہ خوب گیا۔
___
فرمایا، ملزموں کا تعین سی سی ٹی وی کی فوٹیج دیکھ کر کیا جائے۔ یہاں بھی ’’حسن طلب‘‘ مخفی‘‘ ہے۔ مطلب یہ کہ جو ضمانت پر چھوٹے ہوئے، خوش خوش پھرتے ہیں، پھر سے پکڑ کر دھر لئے جائیں۔ کیا طیبہ، کیا زرتاج، کیا شہریار اور کیا شندانہ۔
سب کو پکڑ لو، میں تو سی سی ٹی وی فوٹیج میں تھا ہی نہیں، مجھے چھوڑ دو۔
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے۔
___
حسن طلب کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، آگے بھی کچھ ہے۔ فرمایا، کوئی مجھ سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔ یہ بات کہ کوئی مجھ سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں، وہ اس سے پہلے بھی چھیانوے ستانوے، نہیں، اٹھانوے ننانوے بار کر چکے ہیں۔ اس حسن طلب میں ایک حسرت بھی پوشیدہ ہے
اس قید کا الٰہی دکھڑا کِسے سنائوں
ڈر ہے یہیں قفس میں، میں غم سے مر نہ جائوں
مرنے والا اندیشہ البتہ غیر ضروری ہے۔ حکما، اطبا فرماتے ہیں کہ دیسی مرغا کھانے سے عمر لمبی ہوتی ہے۔ دکھڑا سنانے والی حسرت البتہ اپنی جگہ درست۔ گو کہ شیر مروت، علی ظفر اور گنڈا پور سمیت درجنوں وکیل ان سے ملتے اور غمگساری کرتے ہیں لیکن کیاکیجئے، سخت فہم ان میں ایک بھی نہیں اور دکھڑا فہمی کیلئے سخت فہمی ازحد ضروری ٹھہری۔
___
ہاں، یاد آیا۔ کوئی مجھ سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں کے بیانئے کا تقاضا ہے کہ خان صاحب اپنی پارٹی کے عہدیداروں اور میڈیا سیل کے شہسواروں کو ہدایت جاری کریں کہ وہ اب تک جاری کئے گئے ان سینکڑوں نیوز بلیٹنز کو واپس لیں جن میں شبانہ روز، ہفتے کے سات دن، مہینے کے چار ہفتے اور سال کے بارہ مہینے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ کل فلانا بڑا ملنے جیل پہنچا، پرسوں فلاں بڑے کا ایلچی آیا، خان سے بات کرنے کی منت کی، ترلہ کیا لیکن خان نے ایک نہ سنی، این آر او دینے سے صاف انکار کیا اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا کہہ کر سب کو گیٹ آئوٹ کر دیا__ ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔
___
جیل حکام نے بتایا ہے کہ خان کا جیل میں نمبر 804 نہیں بلکہ 409 ہے۔ کسی غلط فہمی کی وجہ سے یہ نمبر مشہور ہو گیا۔ اطلاع کے مطابق 804 نمبر دراصل کسی اور قیدی کا ہے جو چھوٹی موٹی چوری چکاری کے جرم میں قید ہے۔
پی ٹی آئی نے جو نعرہ بنایا تھا، اب اس کا کیا ہو گا؟۔ نعرہ یہ تھا کہ تیرا یار میرا یار قیدی نمبر آٹھ سو چار۔
غالباً اب اس نعرے کی شکل یوں کرنا ہو گی کہ
تیرا یار میرا یار
قیدی نمبر چار سو نو قیدی نمبر چار سو نو
اب اس صورت میں ردیف قافیے کا کیا ہو گا؟۔
وہی ہو گا جو تیلی رے تیلی، تیرے سر پر کولہو والے جواب مصرعہ میں ہوا تھا۔ ویسے بھی حقیقی آزادی کا انقلاب ردیف قافیے کی قید سے آزاد ہوا کرتا ہے۔
___
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 5 عشرے بعد انصاف مل گیا۔ طویل عرصے کے بعد آنے والے حقیقی قاضی القضاہ نے فیصلہ سنا دیا کہ مرحوم کو فیئر ٹرائل نہیں ملا۔
انصاف ملنے میں 5 عشرے لگ ہی جایا کرتے ہیں۔ اس حساب سے 2068ء ء (یعنی سن بیس سو اڑسٹھ) میں یہ فیصلہ بھی آ ہی جائے گا کہ نواز شریف کو پناما اقاما کیس میں فیئر ٹرائل نہیں ملا۔