اسلام آباد(خبرنگار)جدید دور کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اسلامی بنیادوں پر علم کی تشکیل ناگزیر ہے۔ اس تنظیم نو کے لیے معلمین، پالیسی سازوں اور معاشرے کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ قرآنی تعلیمات کے عملی اطلاق کو ترجیح دیتے ہوئے اسلام پر مبنی علم کو فروغ دیا جا سکے۔ اس بات کا اظہار معروف دانشور اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ)، اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اسد زمان نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ 'استعماری اثرات سے پاک تعلیم کے لیے اسلامی بنیاد ' کے موضوع پر دیے گئے اس لیکچر کو سننے کے لیے ماہرینِ تعلیم، سماجیات کے طلبہ و طالبات، اور علماءکی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بالعموم مغربی علم کو ترقی کا واحد راستہ قرار دیا جاتا ہے، مسلم معاشروں کو ایک گہرے اور مشکل مخمصے کا سامنا ہے۔ قرآن کے انقلابی پیغام اور اسلام کی بھرپور فکری روایت کے باوجود بہت سے مسلمان خود کو جدید مسائل و تحدیات سے نمٹنے کے لیے دینی علم کو بروئے کار لانے سے قاصر ہیں۔ مسلم دنیا کو درپیش اس صورتِ حال کی وجہ گذشتہ دو صدیوں کے دوران استعماری نکتہ نظر سے تشکیل دی گئی تعلیم ہے۔ ڈاکٹر اسد زمان کا کہنا تھا کہ یہ معروف خیال کہ عصری مسائل کا حل صرف مغربی نظریات، جمہوریت، لادینیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں ہی پایا جا تا ہے، دراصل "مرکب جہالت" کی عکاسی کرتا ہے۔ مسلمانوں کو قرآن کے علم تک رسائی حاصل ہے، لیکن اس ذہنیت کے ساتھ، وہ موجودہ دور کی پیچیدگیوں پر اسے مو¿ثر طریقے سے لاگو نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس طرزِ فکر میں عصری تصورات جس طرح تشکیل پاتے ہیں ، ان کی وجہ سے بہت سے لوگ قرآنی حکمت اور معاشروں کو تبدیل کرنے کی اس کی طاقت سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔ماضی میں بھی قرآن کے اطلاق سے ایک ایسی تہذیب پیدا ہوئی جس نے صدیوں تک دنیا کو روشن کیا، اور اپنے جامع پیغام کے ذریعے سائنس سے لے کر حکمرانی تک کے شعبوں کو منفرد انداز میں تشکیل دیا۔ اسپین (الاندلس) نے اسلامی علم کو یورپ تک پہنچایا، جس سے وہاں کے تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور ترقی و روشن خیالی کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم اہلِ یورپ اسلام کی بنیاد پر استوار اس علم کے جوہر کو نہ پا سکے۔ اسلامی علوم اور سوچنے کے انداز نے خود عیسائیت کے اندر تو متعدد تبدیلیاں پیدا کیں لیکن اسلام کے علم کا حقیقی خزانہ علم ان کی دسترس سے باہر ہی رہا۔ لہٰذا یہ لازم ہے کہ اصل اسلامی علم حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کوعلم اور نظامِ تعلیم کی ا±س روایت سے ج±ڑنے کا اہتمام کیا جائے، جو مغرب کے نو آبادیاتی نظریے کی وجہ سے اوجھل ہو گیا ہے۔ انسانی مسائل اور بالخصوص مسلم معاشروں کو درکار حل تعلیمی نظام کو استعماری اثرات سے پاک کرنے اور قرآن کے انقلابی افکار کو بروئے کار لانے میں ہے۔ اس عمل کا تقاضا ہے کہ زندگی کے حقیقی کو تفصیل سے اور بار بار گفتگو کا موضوع بنایا جائے، مفید اور غیر ضروری علم کے درمیان فرق کیا جائے، انسانی فکر کے ذریعے دستیاب علم کی محدودیت کو تسلیم کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی تجربے کے بارے میں اسلامی نفسیات کی جامع تفہیم کو اپنایا جائے۔ اس علم کو عصری گفتگو کے ساتھ مربوط کرکے مسلمان معاشرتی چیلنجوں کی اندرونی اور بیرونی جہتوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔ مہمان مقرر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خالد رحمٰن نے زور دیا کہ سوچ کو استعماری اثرات سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف رائج تصوّرات کو بلا سوچے سمجھے تسلیم کرنے کی بجائے ان پر سوالات اٹھائے جائیں اور خود سے ان پر غور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد ممالک اور معاشروں میں تعلیم کو استعمار کی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے ایک طاقت ور آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے اسلامی علم کی تیاری، فراہمی، ترسیل اور اشاعت میں پائے جانے والے خلاءکو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔