پاکستان میں جہاں اور بہت کچھ اُٹھتا جاتا ہے وہاں صاحبانِ علم و دانش بھی ایک ایک دو دو کر کے اُٹھتے جاتے ہیں۔ نئی نسل کو ایسی تربیت ہی نہیں دی گئی کہ اُن میں سے کوئی جانے والوں کی جگہ لے سکے بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ کندیاں کہاں ہے۔ یہ میانوالی ضلع کا ایک قدیم چھوٹا سا شہر ہے جہاں کی وجہ شہرت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خواجہ خان محمد مرحوم تھے۔ انہوں نے خانقاہِ سراجیہ قائم کی ہوئی تھی اور خانقاہِ سراجیہ اسلامی علوم و فنون کی ایک ایسی لائبریری تھی جسے بغداد کی لائبریری بیت الحکمت سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مولانا نے نوے سالہ زندگی کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کرنے میں صرف کر دی۔ وہ اسلامی فلسفے اور علمِ کلام پر عبور رکھتے تھے اور دور دراز سے تشنگانِ علم آ آ کر علمی پیاس بجھاتے تھے۔ اُن کا شمار ایسے متقی اور متدین علماءحق میں ہوتا تھا جنہوں نے ساری زندگی اسلامی علوم و فنون کی آبیاری میں گزار دی۔ خاتم المرسلین محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی کی ذاتِ اقدس سے اُنہیں اِس قدر عشق تھا کہ ساری زندگی عالمی سطح پر تحفظِ ختم نبوت کے لئے انتھک کام کیا۔ انہوں نے قادیانیت کے خلاف عظیم جدوجہد کی۔ اُن کی ٹکر کا عالمِ دین اس وقت پورے پاکستان میں نہیں ہے۔ اُنہیں منطق کے فن میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ مولانا خواجہ خان محمد کا انتقال تو ایک عظیم نقصان ہے ہی مگر اِس سے پہلے ڈاکٹر اسرار احمد کا انتقال لاہور شہر کے لئے ایک ایسا سانحہ ہے جسے علمِ دین کو آج کے دور کے مطابق سمجھنے کا شوق رکھنے والے بہت مِس کریں گے۔ وہ ایک بے تکان مبلغِ اسلام تھے جنہوں نے بیماری کے عالم میں بھی لوگوں کی علمِ دین کی پیاس بجھانے کا کام نہیں چھوڑا۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے لیکن انہوں نے نئی نسل کو اسلام کی راہوں پر ڈالنے کے لئے زندگی وقف کر دی تھی۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے اسلام سے متعلق سوال و جواب کی جو فضاءتھی۔ آج کی فضاءاُس سے قطعی مختلف ہے۔ آج اکیسویں صدی میں اسلام کو علمی طور پر جن چیلنجوں کا سامنا تھا ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور اُس کا بھرپور جواب دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اسلام کا اتنا مطالعہ کیا کہ وہ فیض کا دریا بن گئے۔ اُن کے بولنے میں روانی فکر میں جولائی اور سوچ میں گہرائی تھی بہرحال آخری دنوں میں انہیں کمر کے شدید درد نے اس قدر آ گھیرا کہ وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اِس وقت قومی سطح کے اسلامی سکالر موجود ہیں اللہ اُن کی عمر دراز کرے آمین اور اُن کو چاہئے کہ ایسے افراد تیار کریں جو اُن کی جگہ لے سکیں اور یہ سلسلہ تاالزھب جاری و ساری رہے مناسب ہو گا کہ یہاں اُردو اور پنجابی کی معروف افسانہ نگار فرخندہ لودھی کے انتقالِ پُرملال کا بھی ذکر کیا جائے۔ حکومت نے اُن کی اعلیٰ نگارشات پر اُنہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔ فرخندہ لودھی فالج کے شدید حملے کے باعث جناح ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔ فرخندہ لودھی اُردو کے پروفیسر معروف ادیب اور خاکہ نگار ڈاکٹر صابر لودھی کی اہلیہ محترمہ تھیں اُن کا پہلا افسانہ پاربتی 1966ءمیں اوراق میں چھپا جس سے اُنہیں بہت شہرت ملی۔ بعد ازاں اُن کے افسانوں سوہنی کمہارن، شرابی، گوبر ٹیکس نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ انہوں نے دیہاتی اور شہری عورت کی زندگی کی بھرپور ترجمانی کی اور اُن کے معاشرتی مسائل کو اُجاگر کیا۔ انہوں نے اپنے پہلے افسانے سے جو معیار قائم کیا اُسے آخری دم تک برقرار رکھا۔ انہوں نے بچوں کے لئے بھی 6 کتابیں لکھیں اردو افسانے میں اُن کا نام بھارت میں عصمت چغتائی اور جیلانی بانو جبکہ پاکستان میں آپا بانو قدسیہ اور فرخندہ لودھی کے حوالے سے معتبر سمجھا جاتا تھا۔ اُن پر ڈاکٹر انور سدید کی کتاب فرخندہ لودھی فن اور شخصیت اکیڈیمی ادبیات کے زیر طبع ہے
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را