میٹروبس .... عوامی سہولت کا عظیم منصوبہ

ایک عام شہری کی حیثیت سے میں نے سابق حکومت کے کارناموں کا جائزہ لینا چاہا تو ہر منصوبہ اپنی بولتی تصویر کے روپ میں نظر آیا لیکن میٹروبس منصوبہ کو دیکھ کر تو میری حیرت ہی گُم ہوگئی۔ 27کلومیٹر طویل بین الاقوامی معیار کی سڑک اور دیگر سہولیات سے مزین یہ ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم صرف 11ماہ کی قلیل مدت میں مکمل ہونا از خود ایک معجزہ نما کارنامہ ہے۔ 30ارب روپے کی لاگت سے ہونے والا یہ فلاحی کام اپنے نتائج کے اعتبار سے لاثانی بھی اور قابل تقلید بھی کیونکہ تعمیراتی کام سے معمولی دلچسپی رکھنے والا عام شخص اور ایک قابل ماہرِ تعمیرات دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کے پاس جتنا بھی پیسہ ہو‘ جتنی بھی افرادی قوت ہو 11ماہ میں ایک خوبصورت مکان کی تعمیر بھی مکمل نہیں کی جاسکتی تو پھر ایسے شخص کی انتظامی صلاحیتوں اور دلچسپی کی داد دینا ہوگی جس نے وہ کام کردکھایا جو ناممکن تھا
 آج تقریباً اوسط 130,000 لوگ روزانہ میٹرو بس پر سفر کرتے ہیں۔ کرایہ ایک غریب تر شخص بھی آسانی سے ادا کرسکتا ہے۔ بغیر کسی تقسیم کے تمام مسافر برابر سہولت کے ساتھ سفر کررہے ہیں۔ گجومتہ سے شاہدرہ تک کا سفر کرنے والا مسافر ہی جانتا ہے کہ اسے کتنی بڑی مشکل سے چھٹکارہ مل گیا ہے۔ جب میں میاں شہباز شریف کے کسی ذاتی مخالف کو میٹروبس کی مخالفت کرتے دیکھتا یا سنتا ہوں تو حیران ہونے کے ساتھ غصہ بھی آتا ہے کہ لڑائی لڑنے کے اور بھی طریقے ہوسکتے ہیں۔ سیاست بازی اور الزام تراشی کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن نہ جانے کیوں یہ غریب پروری اور خالصتاً مفاد عامہ کی سہولت ہی ہر کسی کو کیوں کھٹکتی ہے۔ کوئی اسے جنگلہ بس کہہ کر اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی اسے دیوار برلن سے تشبیہ دے کر شہر کو تقسیم کرنے کی بات کرتا ہے۔اگر کسی کو اور کوئی اعتراض نہ سوجھا تو اس نے اسے جنوبی پنجاب کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ قرار دے دیا۔ یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ جنوبی پنجاب کے کسی پسماندہ ضلع اور علاقہ میں اپنے مزارعوں‘ ہاریوں اور غلام نما مزدوروں کا حق مارنے والے‘ غریب بے بس کسان کا پانی چوری کرنے والے ڈاکو اور رسہ گیر کو کیا پتہ کہ اسی علاقے کے لوگ جب اپنے کاموں کے لیے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے صوبائی دارالحکومت لاہور جاتے ہیں تو ٹریفک کا بوجھ کتنا بڑھ جاتا ہے۔ اس میٹروبس کے ذریعے شاہدرہ سے ضلع کچہری اور سیکرٹریٹ کے گردونواح میں واقع سرکاری صوبائی دفاتر میں آنے والے ہزاروں لاکھوں لوگ اس سہولت سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ براہِ راست ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے لیے یہ نئی جدت پیدا کی گئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میٹرو بس پورے پنجاب تک اپنا رنگ بکھیر رہی ہے۔ رہی بات ناقدین کی تو اُن کی سُننے اور پرواہ کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی کارکردگی اور استعدادِ کار میں اضافہ کیاجائے۔حکومت دراصل عوامی خدمت کے فرائض سرانجام دینے کا ہی نام ہے۔شہرلاہور کی سڑکوں پر چلنے والی عام بسوں میں سفر کرنے والے عام لوگوں کی حالت زار دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے کہ میٹروبس بلاشبہ میاں شہباز شریف اور اُن کی پوری ٹیم کی طرف سے غریبوں کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ اسے غریب پروری کے سوا کچھ بھی کہنا غلط ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...