مستقبل کی ”بے نظیر“ سیاستدان۔ مریم نواز

موروثی سیاست، جمہوریت کے انداز اور آداب کے مطابق ہو تو شجرِ ممنوعہ نہیں ہے۔ بھارت کسی شک اور شبہ کے بغیر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے حالانکہ 1947ءسے اب تک ایک ہی خاندان کے جلوے، حکمرانی کی تاریخ میں کارفرما ہیں۔پاکستان میں بینظیر بھٹو موروثی سیاست کی تابندہ مثال ہیں مگر کوئی جمہوریت پسند ملکی سیاست میں بے نظیر شہید کے روشن، تاریخی اور اہم کردار کے نقوش کو فراموش نہیں کر سکتا۔
سیدھی بات یہ ہے کہ موروثی سیاست اگر آمریت کے جبر کی علامت نہیں ہے اور عوام اسے قبول کرتے ہیں تو جمہوریت کے تقاضوں پر پورا اترتی ہے۔جمہوریت کا مطلب عوام ہیں۔ عوامی رائے کا احترام ہی جمہوریت ہے۔ جمہوریت سیاست میں کسی شخصیت کی آمد، اس کی ذاتی صلاحیتوں، ذہانت اور میرٹ کی بنیاد پر ہو تو آنے والی شخصیت، مخالفتوں کے طوفانوں میں خود ہی جگہ بنا لے گی۔ موروثی سیاست جیسا الزام اس کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہیں ہو گا۔پاکستان کی حالیہ گرما گرم، رنجش آلود اور دہشت گردی جیسے ماحول کی سیاست میں مریم نواز کی آمد ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔ وہ خود اپنا آپ تعارف ہیں۔ع
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
ایک خوبصورت پروقار، پرکشش مشرقی انداز کی شخصیت مریم نواز نے پاکستان کی سیاست میں بینظیر بھٹو کی یاد تازہ کر دی ہے۔ خود مریم نواز یہ اعتراف کرنے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتیں کہ وہ بینظیر کی شخصیت اور انداز سیاست سے بہت متاثر ہیں۔ حالانکہ ماضی کی سیاست بینظیر، نواز شریف رنجش سے آلودہ رہی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں خواتین عام انسانی حقوق سے محروم ہیں دوسرے درجے کی شہری گردانی جاتی ہیں۔ بینظیر بھٹو ایک نمایاں جدوجہد کی روشن علامت تھیں اور مریم نواز امید کی کرن ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
یہ الگ بات ہے کہ 2013ءکے الیکشن میں بھی مریم نواز کی شرکت بھرپور نہیں ہے۔ شاید شریف فیملی ابھی ان کی پرواز اور اڑان کو محدود رکھنا چاہتی ہے۔ اس کا سبب سکیورٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ حالیہ انتخابات زیادہ محفوظ بھی نہیں ہیں۔ مریم نواز کی سیاسی سرگرمیاں صرف ان کے والد کے لاہور کے حلقے تک ہی محدود رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے سارے پاکستان تو کجا پنجاب کے کسی اور حلقے کا دورہ کرنے سے بھی اجتناب کیا ہے مگر صرف ایک انتخابی حلقے میں بھی مریم نواز کی کارکردگی متاثر کن ہے۔
البتہ میڈیا کے کئی چینلوں پر مریم نواز کے طویل انٹرویو ٹیلی کاسٹ ہوئے ہیں جن میں مریم نواز نے اپنے انداز و بیان ذہانت، سیاسی مطالعے، دور بینی اور دوراندیشی کا بلاخیز ثبوت پیش کیا ہے۔ وہ غیر ضروری بحث میں الجھنے سے گریز کرتی ہیں اور دلیل سے گفتگو کرتی ہیں۔
 مریم نواز کی 2013ءکے الیکشن میں بھرپور شخصیت مسلم لیگ (ن) کو واضح برتری دلا سکتی تھی کیونکہ پاکستان کی سیاست میں ”شخصیت“ کی دلکشی، جرات، سیاسی نعرے، جلسوں کی رعنائیت میں اضافہ کرتے ہیں ، عمران خان کے جلسے اس امر کی واضح مثال ہیں۔
یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ مریم نواز لاہو،ر پنجاب یا ملک کے کسی انتخابی حلقے سے امیدوار نہیں ہیں۔ حالانکہ وہ سیاسی طوفان بن کر عمران خان کے سونامی کا بھرپور مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کیا شریف فیملی نے مریم نواز کو ضائع کر دیا ہے؟
اپنے سیاسی انٹرویوز میں مریم نواز اپنے پیارے ابو یا ڈیڈی میاں نواز شریف کا ذکر ”میاں صاحب“ کے الفاظ کے ذریعے کرتی ہیں۔ انہیں وہ جبر اور سختیاں یاد ہیں جو نواز شریف کو بے اقتدار کرنے اور جلاوطن رکھنے کی تلخ کہانی کا حصہ ہیں۔ وہ اپنے چچا شہباز شریف کا ذکر بھی بڑے خلوص سے کرتی ہیں۔
مریم نواز ہماری تہذیب اخلاقی اقدار کی علامت ہیں۔ ان کی گفتگو میں باپ کی محبت کی مٹھاس صاف محسوس ہوتی ہے۔ مگر وہ جذباتی ہونے کی بجائے اعتماد سے، ذہانت سے، محتاط گفتگو کرتی ہیں۔
مریم نواز اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیم سے ان کی دلچسپی ختم نہیں ہوئی۔ وہ ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں۔ ہمیشہ خوبصورت لباس میں ملبوس، مشرقی آداب اور انداز سے آگاہ، سر پر ”دوپٹے“ سے سرفراز، مریم نواز، مستقبل کی ”بینظیر“ ہیں۔ سیاست میں عروج اور کمال کے خوبصورت اور حسین لمحات ان کے منتظر ہیں۔ مگر تجربوں اور مشاہدوں کی دنیا میں سب کے حالات واقعات یکساں نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مریم نواز کو سانحوں اور المناک واقعات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔مریم نواز آسمان سیاست کا روشن آفتاب ہیں۔ وہ اپنی ذہانت، محنت اور ریاضت سے پاکستانی سیاست میں ”کرشماتی شخصیت“ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ہم ان کے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے دعا گو ہیں۔ بی بی مریم کی ایک مجبوری بھی ہے۔ ان کے دونوں بھائی حسن اور حسین مستقل طور پر پاکستان سے باہر لندن، جدہ میں مقیم ہیں پاکستانی سیاست سے بہت دور!

ای پیپر دی نیشن