23دسمبر 2012ءکو، علّامہ طاہراُلقادری کا جلسہ ۔لاہور کے مینارِ پاکستان کے سائے میں، تحریکِ منہاج اُلقران کے زیرِ اہتمام ہُوا تھا۔ جلسے میں علّامہ اُلقادری کی۔ (غیر فعال بلکہ مرحوم و مغفور سیاسی جماعت)۔”پاکستان عوامی تحریک “۔کا جھنڈا کہیں نہیں دِکھائی دیا۔ ہر طرف پاکستان کا قومی پرچم لہرا رہا تھا۔ اِس پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے، القادری صاحب کو داد دی کہ ۔”موصوف قومی پرچم کو اپنی پارٹی کے جھنڈے پر ترجیح دیتے ہیں“۔لیکن دو روز قبل (6مئی کو) علّامہ القادری،لاہور ائرپورٹ پر اُترے تو اُن کا استقبال کرنے والوں نے، پاکستان عوامی تحریک کے جھنڈے اُٹھارکھے تھے۔ گویا اِس بار ”حضرت“۔تحریکِ منہاج اُلقرآن کے سربراہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ پاکستان عوامی تحریک کے صدر، چیئرمین یا ۔( بلاول بھٹو زرداری کی طرح) ۔سر پرستِ اعلیٰ کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں۔
علّامہ القادری کے لئے اچھا موقع تھا کہ وہ، 23دسمبر 2012ءیا 14سے17جنوری 2013ءتک، اسلام آباد میں، اپنی قیادت میں دھرنے کے موقع پر۔”لاکھوں لوگوں“۔ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرسے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کرتے کہ۔ ”مَیں آج سے، کینیڈا کی شہریت چھوڑ رہا ہوں۔ میرا جینا اور مرنا پاکستان کے ساتھ ہے“۔اگر علامہ صاحب یہ اعلان کر دیتے تو، وہ بھی آج کل، نواز شریف اور عمران خان کی طرح، بڑے بڑے جلسوں میں اپنے لئے۔ ”زندہ باد کے نعرے“۔سُن رہے ہوتے، لیکن ایک پنجابی اکھان کے مطابق ۔ ”ویلیوں کھنجی ڈومنی ۔ گاوے آل پتال “۔دراصل علّامہ طاہر اُلقادری۔ تحریکِ منہاج القرآن کے زیر، اہتمام دُنیا کے 90مُلکوں میں پھیلے ہُوئے، اپنے کاروبار کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ حالانکہ یہ کاروبار تو موصوف کے دونوں بیٹے اور داماد بھی سنبھال سکتے تھے۔
17جنوری کو بم پروف کنٹینر میں اپنے اہلِ خانہ سمیت مامون و محفوظ علّامہ القادری کی مُٹھّی میں(بقول اُ ن کے)40لاکھ لوگوں کے جذبات بند تھے۔ موصوف نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر۔ ”میری قیادت میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا 5منٹ مزید رہ جاتا تو مُلک میں مارشل لاءنافذ ہو جاتا“۔اپنے اس قول کی صداقت کے لئے علّامہ القادری نے ابھی تک کوئی ثبوت نہیں دِیا کہ کیا اُنہیں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مارشل نافذ کرنے کی دھمکی دی تھی یا ملکہءالزبتھ ثانی نے، موصوف کو اِس خطرے سے آگاہ کِیا تھا ؟۔
اسلام آباد میں 17جنوری کو، جو دھرنا تھا اور جِس طرح ،اُس دھرنے میں شریک لوگوں کے جذبات ۔” علامہ طاہر القادری کی مُٹھّی میں“۔ تھے ۔ اگر، سکندر ِاعظم کی فوج میں بھی اِسی طرح کے جذبات ہوتے تو آدھی دُنیا کا وہ فاتح پورا ہندوستان ہی فتح کر کے مقدُونیہ واپس لوٹتا، علّامہ القادری نے دھرنے کے دوسرے روز ہی صدر زرداری ، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف اور وفاقی حکومت کو برطرف کر دِیا تھا ،لیکن پھِر وزیرِاعظم کے بھیجے ہُوئے وفد کے ساتھ ۔” میثاقِ جمہوریت دو نمبر“۔ پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی حیثیت سے دستخط بھی کردئیے، بس یہی ننھی سی خواہش تھی ؟۔ کہ حکومت ( مفلوج و مدفون) پاکستان عوامی تحریک کو زندہ تسلیم کر لے ۔ حالانکہ علّامہ صاحب لانگ مارچ میں شریک لوگوں کے گھروں ، موٹر سائیکلوں /سکوٹروں اور کاروں کے علاوہ خواتین سے اُن کے زیور ہتھیا کر۔”انقلاب“۔ لانے اور حسینیت کا پرچم لے کر لاہور سے نِکلے تھے اور موصوف کا دعویٰ تھا کہ ۔” میری قیادت میں لانگ مارچ ۔ عوامی جمہوریہ چین کے ماﺅزے تنگ کے لانگ مارچ سے بھی بڑا ہو گا“۔
ماﺅزے تنگ کی قیادت میں (1934ء۔1935ءمیں) نظریات سے مسلّح اور گوریلا جنگ میں تربیت یافتہ سُرخ فوج کے جوان شریک تھے ۔ اور ماﺅزے تنگ نے اپنے لئے، زندگی کی تمام آسائشوں سے لبریز بم پروف کنٹینر نہیں بنوایا تھا ۔ ماﺅزے تنگ کا انقلاب کامیاب رہا ۔ دراصل چینی قوم اپنے قائد کو صحیح معنوں میں ۔” صادق اور امین“۔ سمجھتی تھی اور اُن کی بے حد عِزّت بھی کرتی تھی ۔ جب کہ علّامہ صاحب کی قیادت میں آنے والے لوگ ایک بھِیڑ یا ہجوم کے سِوا کُچھ نہیں تھے۔پاکستان سے باہر، طاہر اُلقادری کی ۔” شیخ اُلاسلامی “۔ تو چل نکلی ہے ،لیکن پاکستان میں اُن کی سیاسی جماعت ۔” عوامی“۔ نہیں بن سکی ۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو وہ عام انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتے ۔ 23دسمبر 2012ءکے اُن کے جلسے سے پہلے اور کچھ دنوں تک بعد میں بھی ،لندن بیٹھ کر الطاف حسین اور جنرل (ر) پرویز مشرّف نے اور پاکستان میں عِمران خان اور مسلم لیگ ق کے چودھری بردران نے بھی علّامہ صاحب کو ۔” ہلا شیری “۔ دی تھی ،لیکن جب اُن حضرات کو پتہ چلا کہ علّامہ صاحب ۔” انقلاب“۔ لانے کے لئے نہیں بلکہ گند ڈالنے آئے ہیں تو اُن سب نے واضح طور پر لانگ مارچ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ۔
اپنی لاہور آمد کے فوراً بعد ،علّامہ القادری نے، الیکشن کمِشن اور اُس کے بعد ہائی کورٹ کی طرف سے جنرل(ر) پرویز مشرف کو انتخاب لڑنے کے لئے نا اہل قرار دینے کا بُرا منایا ہے اور کہا ہے کہ ۔”یہ انتخابات ہی ناجائز ہیں “۔حالانکہ اگر القادری صاحب کا۔” فتویٰ “۔صحیح ہوتا تو ، مولانا فضل الرحمٰن، سیّد منور حسن اور دوسرے عُلماءکی جماعتیں انتخابات میں حِصّہ کیوں لیتیں ؟۔ علّامہ القادری نے، الیکشن کمِشن آف پاکستان کو تحلیل کرانے کے لئے ،پاکستان کے ایک ووٹر کی حیثیت سے، سُپریم کورٹ میں درخواست پیش کی تھی ، لیکن اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے قاضی اُلقُضّات اور اُن کے دو ساتھیوں نے علّامہ القادری کی درخواست کو ہی ۔”نا جائز“۔ قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے (فتوے) میں لِکھا کہ ۔” علّامہ طاہر اُلقادری ، الیکشن کمِشن کو تحلیل کرانے کے لئے، اپنی درخواست میں،خود کو نیک نِیّت ثابت نہیں کر سکے“۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب عرفان قادر نے بھی کہا کہ، علّامہ القادری کے ہاتھ صاف نہیں ہیں “۔
خو دکو ۔” نیک نِیّت “۔ ثابت نہ کر سکنے والے اور مَیلے ہاتھوں والے۔” شیخ اُلاسلام“۔ کی قیادت میں ، اُن کی سیاسی جماعت ، پاکستان عوامی تحریک ، نہ صِرف عام انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہے ،بلکہ ۔ علّامہ القادری کے اعلان کے مطابق ، اُن کی جماعت کے لاکھوں کارکن 11مئی کو ہر شہر میںدھرنا دیں گے ۔یعنی جب پاکستان کے پونے 9کروڑ ،ووٹرز اپنا اپنا ووٹ کاسٹ کر رہے ہوں گے تو پاکستان عوامی تحریک کے سارے ارکان ۔” ووٹ نادہندہ“۔ ہوں گے ۔اور سب سے بڑے ۔” ووٹ نادہندہ“۔ ہوں گے۔ علّامہ طاہر اُلقادری !۔اِس پر شاعرِسیاست کہتے ہیں ۔
” بس کہ اِک ،موسمی پرِندہ ہیں!
اور خطاب کے ذریعے، زِندہ ہیں!
دھرنا دینے کا، حق دیا، کِس نے؟
آپ تو ،ووٹ نادہِندہ ہیں!
”ووٹ نادہِندہ“.... طاہر اُلقادری!
May 08, 2013