پاکستان کی روایتی سیاست میں اگرچہ ابھی تک جاگیرداری، سرمایہ داری اور بیورو کریسی کے غلبہ کو ختم یا کم نہیں کیا جا سکا، تاہم عوام میں سیاسی اور سماجی شعور کو بیدار کرنے میں اول اول بھٹو مرحوم نے اپنا انقلابی کردار ادا کیا۔ ازاں بعد اس ضمن میں الطاف حسین کی کاوشیں بارآور ثابت ہوئیں۔ بھٹو مرحوم نے جب اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی تو عوام نے انکی بے پناہ پذیرائی کی اور یوں صحیح معنوں میں یہ ایک عوامی انقلابی پارٹی کہلائی تاہم جلد ہی قرب وجوار میں منڈلاتے ہوئے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے بھٹو صاحب کو بمعہ انکے انقلابی نظریات کے، ہائی جیک کر لیا اور پارٹی پر قابض ہو گئے۔ آخرکار ان ہی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے ایک فوجی آمر سے مل کر اسی انقلابی رہنما سے جو ’’سلوک‘‘ روا رکھا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ بھٹو مرحوم کے المناک عدالتی قتل کا جائزہ لیں تو اندازہ لگانا سہل ہو جاتا ہے کہ اس شرمناک اور کرب تک ’’واردات‘‘ میں اس وقت کے فوجی آمر کیساتھ ساتھ وہ سب جاگیردار اور سرمایہ دار بھی برابر کے شریک تھے جو اس وقت کی ملکی سیاست کے افق پر نمایاں تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ جب الطاف حسین نے اپنی پارٹی کا آغاز کیا تو اس کی عوامی انقلابی اور نظریاتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو اس سے کوسوں دور رکھا اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک الطاف حسین اور ان کی پارٹی کی یہ حیثیت کم از کم کارکنوں کی حد تک تو قائم ودائم ہی ہے۔
بھٹو مرحوم کے بعد الطاف حسین پاکستانی سیاست کا ایک ایسا حقیقی انقلابی کردار ہیں جو کسی حد تک افسانوی رنگ لئے ہوئے ہے۔ اول الذکر کی طرح انکی شخصیت بھی متعدد حوالوں سے ’’متنازعہ فیہ‘‘ ہونے کے باوجود عوام کی ایک کثیر تعداد کی نظروں میں بہرطور محبوبیت کی حامل ہے۔ بھٹو کے برعکس وہ پیدائشی طور پر آسودہ حال تھے نہ موروثی سیاست دان، تاہم انہوں نے اپنی محنت شاقہ اور عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بہت جلد اپنی پارٹی کو وقت کا ساز اور عوام کی آواز بنا دیا اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ عام کارکن کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کرنیوالے الطاف حسین عوامی سیاست کا سلوگن بن گئے۔ انکی آواز میں عام آدمی اپنی آواز کی گونج محسوس کرتا ہے۔ وہ کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے ماضی کے مصلحت پسند انقلابی رہنمائوں کے برعکس، بدفطرت جاگیرداروں، بدطینت سرمایہ داروں اور مجہول مذہبی جنونیوں کیساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ان استحصالی قوتوں کیخلاف ان کا لہجہ بڑا واضح اور بلند آہنگ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک مجبور، محروم اور بے بس عام آدمی انکے نظریات اور خیالات میں اپنی امنگوں اور آدرشوں کا عکس دیکھتا ہے۔ بھارت کی طرح اگر کبھی پاکستان میں بھی حقیقتاً عام آدمی پارٹی کا وجود عمل میں آیا تو اس کی شکل یقیناً الطاف حسین کی پارٹی سے ملتی جلتی ہو گی کہ ہنوز ان کی پارٹی کو بھی عام آدمی کی ہی پارٹی کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک ان کی پارٹی نہ تو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ’’پنجہ استبداد‘‘ میں آئی ہے اور نہ ہی کوئی استحصالی طبقہ ان کا قرب حاصل کر سکا ہے اور یہی امر بہرحال الطاف حسین انکی پارٹی اور پاکستانی سیاست کیلئے خوش آئند ہے اور آخر میں، سوال یہ نہیں کہ الطاف حسین وطن واپس آئینگے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ انہیں بہرطور واپس آنا چاہئے اور ملکی سیاست میں ان کا جو مثبت کردار بنتا ہے وہ بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہئے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے اور شاید پارٹی کی سیاست کا بھی…! دوسری طرف اگر باقی پارٹیوں کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ تمام کی تمام شخصی پارٹیاں ہیں یا موروثی جو خود کو اس امر کا پابند بنائے ہوئے ہیں کہ کس طرح عوام کے ناتواں اور نڈھال کندھوں پر ’’اہل خانہ‘‘ سمیت سواری کرنی ہے اور بالآخر اقتدار کی پراسرار راہداریوں میں روپوش ہو جانا ہے۔ اس معاملے میں صرف جماعت اسلامی کو استثنا حاصل ہے کہ اس میں واقعی ہر پانچ برس بعد بڑے شفاف اور سادہ طریقہ سے انتخابات کرائے جاتے ہیں اور اراکین جسے چاہتے ہیں جمہوری طریقے سے اپنا امیر منتخب کر لیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں قاضی حسین احمد مرحوم بہت بڑے انقلابی لیڈر تھے۔ عمران خان کی پارٹی بھی تبدیلی اور انقلاب کی داعی تھی لیکن افسوس کہ یہ نوزائیدہ پارٹی اپنے ہی سربراہ کے بوجھ تلے پڑی سسک رہی ہے اور چند سرمایہ دار آس پاس ’’مسلح‘‘ پہرہ دے رہے ہیں کہ کوئی غریب کارکن انصاف کی دہائی دینے کے قریب نہ پھٹک پائے۔
پاکستانی سیاست کے انقلابی کردار اور پارٹیاں
May 08, 2014