حالیہ دنوں میں گندم کی فصل اور اس سے متعلقہ امور کا شعور برپا ہوتا ہے گندم کے بارے میں کچھ تو مثبت اشارے مل رہے ہیں اور کچھ منفی پہلے تو ہم مثبت اشاروں کی بات کرتے ہیں گزشتہ برس وفاقی حکومت نے عنان اقتدار سنبھالی تو گندم کی امدادی قیمت کا فیصلہ ایک مشکل کام تھا راقم الحروف نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اس سال گندم کے نرح بڑھانے کی ضرورت نہیں لیکن حکومت کا اولین فرض یہ ہونا چاہئیے کہ کھاد، بیج، ڈیزل، بجلی، ٹریکٹر اور دیگر لوازمات کی قیمتوں میں کمی کی جائے اور اس کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ ان سب اشیاء کی فراہمی کو سستے نرخوں پر ممکن بنایا جائے۔ ایسی تجویز دینے کا مقصد ترجیہی بنیادوں پر 80 فیصد چھوٹے کسانوں کے گائوں سے غربت کی سطح کو کم اور ان کی حالت زار کو بہتر بنانا تھا جب کہ دوسری طرف شہری عوام جو مہنگا آٹا کھاتے ہیں انہیں اس کی مہنگائی سے نجات دلانا تھا۔ اگرچہ گزشتہ برس میاں شہباز شریف کی عمدہ حکمت عملی اور ایسوسی ایشن کی ناقص کارکردگی کی بدولت بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے بھی جو آٹے کے نرخ بڑھنے تھے وہ نہیں بڑھے مگر پالیسیاں صحیح ہیں تو نرخوں میں کسی قسم کا جھگڑا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس سال اندازوں کے مطابق 2کروڑ 45لاکھ ٹن سے بھی زائد گندم پیدا ہوئی ہے اور اوسط پیداوار بھی 29 من فی ایکٹر سے بڑھ کر 39/40 تک جا پہنچی ہے گو بے وقت بارشوں نے کچھ پریشان بھی کیا مگر حالات مناسب ہی رہے اور کہیں کہیں کچھ نقصانات ہوئے۔ فصل کے بعد اگلا مرحلہ خریداری کا ہوتا ہے محکمہ خورام کے اپنے قوائد و ضوابط کے مطابق خریداری مہم رضا کارانہ ہوتی ہے جس کا مقصد ہوتا ہے کہ مارکیٹ اگر سرکاری نرخ 1200روپے فی من سے نیچے چلا جائے تو حکومت میدان میں آ کر اس گندم کو خریدے تاکہ مارکیٹ کرپشن نہ کرے اور کسان کو نقصان نہ ہو۔ اس سال اٹھارویں ترمیم کے بعد اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے نرخ 1200روپے سے بڑھا کر 1250 کر دیا مگر پنجاب میں سرکاری طور پر 35 سے 40 لاکھ ٹن گندم وفاقی حکومت کی مقرر کردہ امدادی قیمت 1200 روپے فی من پر خریدنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب پالیسی خریداری گندم بنتی ہے تو اس کے کچھ قوائد و ضوابط طے کئے جاتے ہیں جن میں کہیں نہیں لکھا ہوتا کہ رضا کارانہ کی بجائے جبری خریداری کرنی ہے مگر اب آتے ہیں منفی پہلوئوں کی طرف پنجاب کے محکمہ خورام نے خریداری شروک کرتے ہی تمام اصولوں اور قوائد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے تو صوبوں کے درمیان غیر اعلانیہ پابندی لگا کر اٹک، میانوالی اور صادق آباد سے ٹرک روک کر جبری طور پر اپنے سینٹروں پر اتارنے شروع کئے اگر پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کا کوئی مکمل چیئرمین ہوتا تو شاید یہ نوبت نہ آنے دیتا مگر کمزور قیادت کی وجہ سے محکمہ خوراک کو کھل کھیلنے کا موقع ملا اور اس وقت تینوں صوبوں کے عوام اور فلور ملیں پنجاب کی اس جبری مہم کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں جس کے تحت گزشتہ ہفتوں میں 50روپے فی تھیلہ آٹا کمی کی گئی تھی اور یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس میں گندم کی شاندار فصل کے ثمرات ہیں مگر صد افسوس کہ وزیر اعلیٰ کی سطح پرجو ٹارگٹ مقرر کیا گیا اس کو حاصل کرنے والوں نے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فلور ملوں کے سینکڑوں ٹرکوں کو سینٹروں پر اتار کر یہ پیغام دیا کہ جس کو گندم نہیں ملتی وہ محکمہ کے ایک اعلیٰ افسر سے بات کرے گویا وہ بات کرے یا لوگوں کو آٹا فراہم کرنے کیلئے مہنگے نرخوں پر گندم خرید کر اپنا کاروبار چلائے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ منڈیوں میں نرخ 1200سے بڑھ کر 1230تک جا پہنچے اور ان علاقوں میں جہاں گندم کم پیدا ہوتی ہے جیسے لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، اسلام آباد اور فیصل آباد وہاں تو اس کے نرخ 1270روپے فی 40 کلو گرام تک جا پہنچے ہیں۔ ہمارے خیال میں بیورو کریسی سیاسی قیادت کو بھی بے بس کر دیتی ہے۔ آج 6مئی کو جبری مہم کے تحت گندم کی 9 لاکھ ٹن خریداری مکمل ہو چکی ہے اور گزشتہ چار روز سے لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور فیصل آباد میں گندم کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے اور جھوٹ پر سارا نظام چلایا جا رہا ہے کہا جاتا ہے کہ گندم کی نقل و حمل پر کوئی پابندی نہیں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سے پہلے بھی اس قسم کے غلط فیصلے ان لوگوں نے کروائے اور اب بھی اچھی بھلی فصل کے ثمرات عوام تک پہنچنے سے روکا جا رہا ہے کہ یہ ہے عوام کا مقدر۔