کرپشن وائنڈ نگ کمیشن

بلاول زرداری نے کوٹلی آزاد کشمیر میں ایک جلسہ عام میں گرجتے ہوئے پانامہ لیکس کے تناظر میں وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ اس پر لاہور میں ایک تقریب کے دوران شہباز شریف نے برستے ہوئے بلاول کو جواب دیا۔ ’’انکی پارٹی اور والد آصف زرداری کے دورِ حکومت میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا اگر انکے والد کی کرپشن کے ایک بھی سکینڈل کی تفصیلات سامنے آگئیں تو وہ دم سادھے لاڑکانہ جا بیٹھے گا۔‘‘ شہباز شریف کے کرپشن اور لوٹ مار کی دولت نکلوانے کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ صدر کو استثنیٰ حاصل تھا اس لئے عدلیہ اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہ تھا۔ میاں نواز شریف کی زرداری صاحب کی کرپشن کیخلاف ایکشن لینے کے آج بھی ٹی وی چینلز پر کلپ چل رہے ہوتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی کرپشن کو اجاگر کرکے مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی۔ لوگ مسلم لیگ ن کی حکومت سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور کرپٹ لوگوں کے احتساب کی امید نہیں، یقین رکھتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے کے بعد آصف علی زرداری پورے تین ماہ صدر رہے۔ اس دوران میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان مثالی مفاہمت دیکھنے میں آئی۔ اسے گڈ ورکنگ ریلیشن شپ کا نام دیا گیا۔ ملک کے سب سے بڑے دو آفس ہولڈرز کے درمیان مخاصمت کے بجائے مفاہمت ہی ملکی مفاد اور ان عہدوں کے فرائض کا تقاضا تھا مگر آصف زرداری کو انکی صدارتی مدت پوری ہونے پر وزیراعظم ہاؤس میں شاندار تقریب منعقد کرکے پذیرائی دی گئی وہ مفاہمت سے زیادہ دوستی کی عکاس تھی۔ 5 ستمبر 2013ء کو اس تقریب میں انواع و اقسام کے کھانوں سے شرکاء کی تواضع کی گئی۔ اس تقریب میں خادم اعلیٰ بنفس نفیس موجود تھے۔ یہ وہی شخص تھا جس کو شریف برادران، انکے رفقاء اور لیگی اکابرین نے کرپٹ ترین آدمی قرار دیتے تھے۔
وزیراعظم ہاؤس میں اپنے اعزاز میں برپا الودعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے زرداری صاحب نے فرمایا۔ ’’مفاہمت وقت اور ملک کی ضرورت ہے، مفاہمت سے ہی چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس وقت پاکستان کو مزید مضبوط نہ بنایا گیا تو یہاںبھی مصر، لیبیا اور شام جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے‘‘۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس موقع صداقت اور سچائی کا علم بلند رکھتے ہوئے فرمایا۔ ’’عوام کی ترقی اور خوشحالی اور جمہوریت کا استحکام، یہ ان کا اور صدر آصف علی زرداری کا مشترکہ ایجنڈا ہے‘‘۔
اس تقریب میں زرداری کیلئے میاں صاحب کا جوش و خروش دیکھ کر جہاں کرپٹ لوگوں کے احتساب کیلئے شمعِ امید گل ہو گئی وہیں منکشف ہوا کہ عوام کی ترقی‘ خوشحالی اور جمہوریت کا استحکام نواز زرداری مشترکہ ایجنڈا ہے۔ آج پانامہ لیکس کی تحقیقات کے گرد و غبار میں جس چیزکو مینارۂ نور کہا جا سکتا ہے وہ عوام کی ترقی‘ خوشحالی اور جمہوریت کے استحکام کا نواز زرداری مشترکہ ایجنڈا ہے۔ فاضل وزراء کرام فرماتے ہیں ’’احتساب وزیراعظم سے شروع نہیں ہو گا‘‘ کیوں؟ اگر بے قصور ہیں تو وزیراعظم سے احتساب کا آغاز کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ مودی نے پانامہ لیکس کے فوری بعد تحقیقات کا حکم دے دیا، ہمارے مودے تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کیساتھ چوروں کی لسٹ لاٹھیوں کے گز کی طرح بڑھتی جا رہی ہے۔ ابھی پاناما لیکس کی دوسری لسٹ آنی ہے۔ خورشید شاہ اپوزیشن کے ٹی او آرز سے پسپا ہوتے دکھائی دے رہیں۔ کہتے ہیں۔ ’’حکومت قائل کر لے تو ٹی او آر بدل لیں گے‘‘۔ حکومت مولانا فضل الرحمن کی طرح شاہ صاحب کو بھی قائل کر سکتی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں۔ ’’ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹوں گا نہ حکومت کے ٹی او آرز پر بنایا گیا کمیشن مانوں گا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی وزیراعظم کے خط پر کمیشن بنا کر آزمائش میں نہیں پڑینگے۔ عمران خان استعفے سے کم پر آتے نہیں، میاں نواز شریف اس حد تک جاتے نہیں۔ یہ صورتحال آخر کب تک جوں کی توں رہے گی؟
پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران کرپشن کے ہوشربا سکینڈل اور شواہد سامنے آتے رہے۔ ن لیگ نے گو زرداری گو تحریک چلائی‘ یہ نحیف و ضعیف تحریک جلد دم توڑ گئی‘ پھر ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو مدت پوری کرنے بلکہ کچھ بھی کرنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا۔ پیپلز پارٹی 5 سال میں بری طرح ڈسکریڈٹ ہو گئی‘ جس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو اقتدار کی صورت میں ملا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ کی حکومت جو بھی کر رہی ہے اس سے آنکھیں بند کر لی جائیں‘ اسے مدت پوری کرنے دی جائے۔ آئندہ آنے والوں کو بھی اسی طرح پانچ سال پورے کرائے گئے تو۔۔۔؟؟؟
کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس کے خاتمے کی وہ بھی بات کرتے ہیں جو کرپشن کے قلزم میں غوطہ زن ہیں۔ آج کرپشن کے خاتمے کا شور و غوغا تو بہت ہے مگر منطقی انجام نظر نہیں آتا جبکہ اب کرپشن ایماندار لوگوں‘ دیانتدار حلقوں کی برداشت سے باہر ہو گئی ہے تاہم اسکے خاتمے کا کوئی طریقہ بارآور ہوتا نظر نہیں آتا۔ فریقین مَیں نہ مانوں کی رٹ لگا رہے ہیں۔ اگلے اڑھائی سال اسی کشمکش میں گزر جائینگے۔ قوموں کی زندگی میں جہاں ایک ایک لمحہ انمول ہوتا ہے وہیں بڑے کاز کے حصول کیلئے چند سال کی بھی بڑی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی۔ کرپشن بلکہ انتہا کی کرپشن ایک حقیقت ہے۔ اس ناسور کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا ناگریز ہے مگر سیاست دان وقتی مفاد کے تحت اس طرف نہیں آتے۔ حکمران پارٹی اپنے اقتدار کے ایک دن سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں، عمران خان حکومت کو مزید ایک دن بھی دینے پر آمادہ نہیں۔۔۔ تو حل صرف اور مفاہمت ہی رہ جاتی ہے۔ کرپشن پر نہیں‘ احتساب پر مفاہمت۔
دنیا میں Truth and Reconcilation کمیشن بنتے رہے ہیں۔ 1995ء میں یہ جنوبی افریقہ میں بنا۔ پاناما ٹُرتھ کمیشن کے ذریعے جنرل نوریگا کا احتساب ہوا۔ نوریگا صاحب سی آئی اے کے ایجنٹ تھے۔ امریکہ کو آنکھیں دکھائیں تو وہ اسے اسکے ملک سے اغوا کرکے لے گیا۔ اس پر ڈرگ سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور قتل کے الزام تھے۔ انہی جرائم پر وہ آج فرانس کی جیل میں سڑ رہا ہے۔پاکستان میں کرپشن نے جس طرح سے عروج پکڑا یہاںبے رحم احتساب کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے Corrupition curb کمیشن یا Corruption Winding کمیشن بنایا جائے۔ اسے Truth but not Reconciliation کمیشن کہا جاسکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے۔ اسکے بعد دو سال کیلئے ایک کمیشن پر آج کی سیاسی پارٹیاں اتفاق کرلیں۔ اس کا چیئرمین کرپشن سے پاک کسی شخص کو بنا دیا جائے، بے شک پرویز رشید کو سربراہی دے دیدی جائے۔ آج ایسے لوگ اپنے اپنے لیڈر کی چاکری کر رہے ہیں جب احتساب کا بارِ امانت سر پر ہو گا اور لیڈر کی حیثیت ملزم کی اور اپنی جج کی ہو گی تو پھر صرف انصاف ہو گا۔ نگران عبوری حکومت ساتھ ساتھ چلتی رہے ۔ سلسلہ آج کی حکومت کی آئینی مدت کے آخری دن سے شروع کر کے بیشک قیام پاکستان تک لے جائیں۔ ہر سیاستدان، بیورو کریٹ، جج اور جرنیل احتساب کی چھلنی سے گزر جائے تو انتخابات کرا دیئے جائیں۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...