آہ … انور سدید!!

May 08, 2016

محمد زابر سعید بدر

یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ڈاکٹر انور سدید سے ملاقاتوں کا سلسلہ ہمارے گھر سے شروع ہوا۔میرے بچپن کی حسیں یادوں میںجن بڑے لوگوں کے نقوش ملتے ہیں ان میں سے ایک ڈاکٹر انور سدید بھی تھے۔والد گرامی محترم سعید بدر کے قریبی دوستوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ہمارے گھر میں ہی ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی بھی تشریف لاتے تھے۔ ان دونوں کی والد صاحب سے دوستی تھی مگر ان کا نظریاتی جھکائو وزیر آغا اور انور سدید کی طرف تھا۔ مجھے ان شخصیات سے ملنے کی متعدد دفعہ سعادت حاصل ہوئی۔بچپن سے نوجوانی کا سفر ان بزرگوں کے افکار سمجھنے میں گزرااور مجھے دونوں مکاتب فکر کے ماننے والوں سے ملنے اورانھیں سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے جب 2008ء میں محترم انور سدید کو اپنی کتاب ـ صحافت سے ابلاغیات تک کا مسودہ پیش کیا اور درخواست کی انکل ! میری اس پہلی کاوش پر اپنی رائے سے نواز دیجیے، اس وقت کے جذبات کو میں الفاظ کا پیرہن نہیں اوڑھا سکتا کہ ایک طرف اتنی بڑی علمی و ادبی شخصیت اور دوسری طرف میں۔انھوں نے بڑی شفقت سے مسودہ لیا اور کہا کہ فرصت ملے گی تو میں دیکھ کر تبصرہ کردوں گا۔ میرے لیے اتنا ہی غنیمت تھا کہ انھوں نے مسودہ اپنے پاس رکھ لیاتھا چند دنوں کے بعد انکی سالگرہ کی تقریب ہمارے گھر میں منعقد کی گئی میں اس حوالے سے تھوڑا گھبرایا ہوا تھا کہ نہ جانے وہ میری کتاب پر میرے والد صاحب اور دیگر ادبی شخصیات کے سامنے کیا تبصرہ کرتے ہیں۔مجھے ابھی تک انکی وہ دلفریب مسکراہٹ یاد ہے جب انھوں نے چمکتی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرے والد صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ سعید بدر صاحب آپ خوش نصیب ہیں کہ ایک ادیب کے گھر میں دوسرے ادیب نے جنم لیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے جب میری کتب پر بہت اچھے الفاظ میں تبصرے کیے تو مجھے دنیا بھر سے مبارک باد کے پیغامات کا ایک طومار بندھ گیااور کئی یونی ورسٹیوں کی طرف سے لیکچرز کی پیش کش ہوئی کہ ڈاکٹر انور سدید نے ایسی رائے دی ہے تو یقینا اس میں کوئی وزن ہو گا۔جب میں نے اعجازالحق اعجاز سے مل کر سائوتھ ایشین لٹریری فورم کی بنیاد رکھی تو انکی طرف سے مبارک باد کا پیغام موصول ہوا جس سے ہماری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ایسے متعدد واقعات ہیں جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔ڈاکٹر انور سدید کو ادبی تاریخ نگاری، شخصیت نگاری، تبصرہ نگاری، تنقید وتحقیق اور ادبی صحافت اور دیگر بہت سی اصناف پر ید طولٰی حاصل تھا۔انھوں نے کسی بھی صنف کو محض قلم کا ذائقہ بدلنے کیلئے مس نہیں کیا بلکہ ہر شعبہ ادب میں پوری طرح سے داخل ہو کر تخلیقات کے دریا بہا دیے۔ انکی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اردو ادب کا کوئی طالب علم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ڈاکٹر صاحب اکثر اس خیال کی تردید کرتے تھے کہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے ادب کا زوال شروع ہو گیا ہے۔ انکے مطابق کتاب کا اپنا ایک تہذیبی مدار ہے اور یہ ادب کا ایک مستقل حوالہ ہے۔اسی طرح تنقید کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ تنقید میرے مطالعے کی تفہیم کا عمل ہے، مطالعے کے دوران جتنے سوالات پیدا ہوتے ہیں میں انھیں تنقید کے دوران حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور اپنی طالب علمانہ حیثیت کو بھی برقرا ر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ ڈاکٹر وزیر آغا کے بہت بڑے مداح تھے اور ان پر تنقید ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے انکے بارے میں انکی یہ رائے تھی کہ وہ اپنے اندر کی آواز سن کر تخلیق کاری کرتے تھے۔ ڈاکٹر انور سدید نے مجھے بتایا کہ میں احمد ندیم قاسمی کو بھی ڈاکٹر وزیر آغا کی طرح اپنا محسن تصور کرتا ہوں انھوں نے مجھے ہمیشہ متحرک اور سرگرم رکھا۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اتنا بڑا ادیب پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر تھااور محکمہ آب پاشی سے بحیثیت ایکسین ریٹائرڈ ہوا۔آپ کو بہترین کالم نگاری پر اے پی این ایس ایوارڈ اور 2008ء میں علم و ادب کیلئے لازوال خدمات پر صدارتی ایورڈ سے بھی نوازا گیا۔ انھوں نے 86 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں ــایک صدی کے افسانے، زندہ لوگ، بیسویں صدی کی اردو شاعری، اردو ادب کی مختصر تاریخ، اقبال کے کلاسیکی نقوش، اردو ادب کی تحریکیں،پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ، دلی دور نہیں نمایاں ہیں۔ان پر متعدد کتب، مقالات اور خصوصی نمبر بھی شائع ہوئے۔ اس حقیقت میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر انور سدید کا نام ایک مستند حوالے کے طور پر ہمیشہ نمایاں رہے گا۔بلاشبہ جسمانی طور پر وہ ہم سے جدا ہو گئے ہیں لیکن جب تک اردو ادب زندہ ہے ڈاکٹر انور سدید کا نام گرامی بھی سنہری حروف میں نیر وتاباں رہے گا۔بقول اقبال:
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مزیدخبریں