لاہور (رپورٹ: رفیعہ ناہید اکرام) پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بروز اتوار کو ماؤں کا 103 واں عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ماؤں کی عظمت کا اعتراف اور انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ دنیا بھر میں بچے اپنی ماؤں کو پھول اور تہنیتی کارڈز پیش کریں گے اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں سیمینارز، مذاکرے و دیگر تقریبات منعقد کریں گی۔ اسلام نے تو 14 صدیاںقبل ماں کے قدموں تلے جنت کی نوید سنا کر ماںکی عظمت اور مقام و مرتبے کا تعین کردیا تھا جبکہ باقی دنیا میں ماؤں کا عالمی دن منانے کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ سب سے پہلے اسکا سراغ یونانی تہذیب میں ملتا ہے جہاں تمام دیوتاؤں کی ماں گرہیا دیوی کے اعزاز میں یہ دن منایا جاتا تھا۔ 16 ویں صدی میں ایسٹر سے 40 روز قبل انگلستان میں ایک دن ’’مدرنگ ڈے‘‘ کے نام سے موسوم تھا۔ اس روز شاہی محل کے ملازمین کو اپنے گھروں کو جانے اور ماؤں سے ملنے کی آزادی ہوتی تھی۔ امریکہ میں مدرز ڈے کا آغاز 1872ء میں ہوا۔ اسکی اوّلین محرک جولیا وارڈیور تھیں جو اس حوالے سے مختلف ریاستوں میں تقریبات منعقد کر کراتیں۔ 1907ء میں فلاڈیلفیائی اینا جاروس نے اسے قومی دن کے طور پر منانے کی تحریک چلائی، بالآخر 1911ء میں امریکہ کی ایک ریاست میں یہ دن منایاگیا۔ بعدازاں 1914ء میں صدر روڈولسن نے باقاعدہ ہر مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کا عالمی دن منانے کا سرکاری اعلان کردیا۔ پاکستان میں بعض حلقوںکی طرف سے اس دن کومنانے پر یہ کہ کہا ’’ہر دن ماں کا دن ہے پھر ہم مغربی ممالک کی طرح اسے صرف ایک ہی دن تک محدود کیوں رکھیں‘‘ اعتراض کیا جاتا ہے، مگر دوسری جانب بعض خوش قسمت ماؤںکے علاوہ ماؤںکی بڑی تعداد’’توجہ کی طالب‘‘ ہیں اور انہیں چھوٹے چھوٹے مسائل کیلئے بھی مہینوں بیٹوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وہ انہیں وقت دیتے ہیں نہ ضروریات اور ادویات کا خیال رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اداروں، ہسپتالوں، ذہنی امراض کی علاج گاہوں اور جیلوں میں ہزاروں مائیں اپنے لخت جگروں کی منتظر ہیں۔ گزشتہ روز نوائے وقت سے گفتگو میں عافیت میں مقیم 75 سالہ معراج بی بی نے بتایا میرے چار بچے ہیں۔ بیٹی ائرہوسٹس، بیٹا اکاؤنٹنٹ، انہیں مشکلوں سے پالا پڑھایا مگر میرے بچوں نے بہت دکھ پہنچائے، میں نے جائیداد تقسیم کردی مگر میری بہو اور بیٹے نے میرے حصے کی جائیداد پر قبضہ کرکے مجھے گھرسے نکال دیا۔ معراج بی بی کو ہچکی بندھ گئی اور وہ گفتگوکاسلسلہ جاری نہ رکھ سکی۔ 75 سالہ مسرت عالم نے بتایا میرا ایک ہی بیٹا تھا جو ایک سال کی عمر میں فوت ہوگیا تھا مگر میری آنکھیں اسی کو ترستی رہتی ہیں۔ 65 سالہ روبینہ چاند رانی نے بتایا میری ایک بیٹا امریکہ میں مقیم ہے، دوسرا بینک آفیسر ہے مگر انہوں نے اجازت کے بغیر ماڈل ٹاؤن میں موجود قیمتی گھر بیچ دیا اور ملک سے باہر چلے گئے۔ ہمیں اس وقت پتہ چلا جب ہمیں نئے مالکان نے گھر سے بیدخل کردیا۔ روبینہ نے روتے ہوئے کہا کہ مجھے اب بھی بچوںسے محبت ہے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا مگر میں ان کیلئے برا نہیں چاہتی۔ انجمن حمایت اسلام کے زیراہتمام بے سہارا بچیوں کے ادارے دارالشفقت میں مقیم بچیوں سعدیہ، سدرہ اور فوزیہ نے بتایا کہ ٹی وی پر مدرز ڈے کے بارے میں رپورٹس دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر ہمیں تو صرف عالمی دن ہی نہیں ہر روز ہی ماں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔آن لائن کے مطابق تھیلیسیمیا سے آگاہی کا دن بھی آج منایا جائیگا اور ملک بھر میں سیمینارز اور مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جائیگا۔