ایک دن حکیم جالینوس گھبرایا ہوا اپنے شاگردوں کے پاس آیا اور کہنے لگا ”فوراً میرے لیے فلاں دوا ڈھونڈ کر لاﺅ۔ شدیدضرورت ہے۔“ شاگردوں نے حیرت سے ا±ستاد کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ”آخر آپ کو اس دوا کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟ وہ تو سنتے ہیں پاگلوں اور فاترالعقل لوگوں کو دی جاتی ہے۔“ حکیم جالینوس نے جواب دیا ”بحث مباحثے میں وقت ضائع نہ کرو۔ جلد وہ دوا لاﺅ۔ بات یہ ہے کہ ابھی ابھی ایک پاگل میری طرف متوجہ ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورتا رہا۔ پھر بدمعاشوں کی طرح آنکھ ماری۔ اس کے بعد بڑھ کر میرے کُرتے کی آستین تار تار کر دی۔ میں نے اس معاملے پر غور کیا تو معلوم ہو اکہ شاید وہ مجھے اپنا ہم جنس جان کر ہی ملتفت ہوا تھا، ورنہ میری طرف کیوں متوجہ ہوتا۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب دو آدمی آپس میں ملیں تو ان دونوں میں کوئی نہ کوئی صفت ضرور مشترک ہو گی۔ کُند ہم جنس باہم جنس پرواز کا قول درست ہے۔ کوئی پرندہ دوسرے غیر پرندوں کے غول کے ساتھ کبھی اُڑتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ایک صحرا میں کوے اور کُلنگ کو بڑی محبت اور شوق سے پاس پاس یوں بیٹھے دیکھا جیسے وہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں۔ لیکن ان میں اس اعتبار سے بعد المشرقین تھا۔ بہت دماغ لڑایا، مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ ان میں وجہ اشتراک کیا ہے۔ اسی عالم حیرت میں آہستہ آہستہ جب ان کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں لنگڑے ہیں.... کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز.... انسانوں میں بھی جب روحانی مماثلت نظر آئے تو وہ بلا امتیاز ایک دوسرے کی جانب کھنچتے چلے جاتے ہیں جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ روح امر ربی ہے اور رب کی کوئی صفت دو انسانوں میں حیران کن مماثلت پا جائے تو روحانی کشش یقینی ہے۔نیند کے دوران جب انسان ہوتا ہے تو بیشتر انسان خواب دیکھتے ہیں اور ان خوابوں میں وہ خود کو کسی اور جگہ گھومتے، پھرتے دیکھتے ہیں جبکہ اس کا مادی جسم اپنی جگہ متمکن ہوتا ہے۔ یہ بھی تجربہ بیرون جسم کی ہی ایک صورت ہے۔ خواب میں نظر آنے والی یا گھومنے والی شبیہہ سے خواب دیکھنے والے کو یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ خود ہے جبکہ وہ انسان خود نہیں ہوتا بلکہ روحانیت یا تصوف کے نقطہ¿ نظر سے یہ انسانی نفس ہوتا ہے جو کہ نیند کے دوران چل پھر رہا ہوتا ہے۔ نفس کی اچھی قسم کے محسوس کرنے کے لئیے قلب کی آنکھ یعنی بصیرت مطلوب ہے۔ بصیرت مراقبہ اور یکسوئی سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حبیب نے حکم دیا نماز اس طرح ادا کرو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگر ایسا نہیں کر سکتے کم ازکم یوں تصور کرو خداتمہیں دیکھ رہا ہے اس طریقہ سے نماز ادا کرو یہی سب سے اچھا مراقبہ ہے۔ مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھاہ گہرائیوں میں جاکر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے ناصرف آگاہی حاصل کی جاتی ہے بلکہ مشاہدہ قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کانصب العین صرف اور صرف انسان کے جسم، جذ بات اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلیٰ درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر آگہی کا گوہر تلاش کرنا ہوتا ہے۔ روحانی طاقت نصیب ہو جائے تو انسان کو وجدان مل جاتا ہے۔ دوسرے انسان کے روحانی حالات وجدانی قوت سے القا ہو نے لگتے ہیں۔ اصل حقیقت روح ہے۔ بدن مٹی سے بنا مٹی میں مٹی ہو جائے گا۔ روح رب کے نور سے تخلیق کیا گیا ہے اس لئے موت کے بعد روح واپس عالم ارواح میں پرواز کر جاتا ہے یا کر جاتی ہے۔ روح مذکر اور مونث میں تقسیم نہیں ہوتی، بالخصوص ان تعبیرات کے مطابق جو ہمارے ذہن میں ہیں کہ روح کو خاص صفات پر مشتمل ہونا چاہئے۔ روح چونکہ مجرد ہے لہٰذا اس میں یہ خصوصیات نہیں پائی جاتیں، بولنے میں مرد کی روح مذکر اور عورت کی روح مونث۔ روح کا جسم سے وہی تعلق ہے جو خوشبو کا پھول سے۔ پھول نظر آتا ہے لیکن خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔ ناک بند ہو تو خوشبو سونگھنے کی حس سے محروم ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی بصیرت کے بغیر روح کو محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ روح سنگت پہچان لیتی ہے۔ دو انسانوں میں سنگت مل جائے تو روح بے قرار ہو جاتی ہے۔ جبکہ روحوں کا ملاپ عالم ارواح میں ممکن ہے عالم دنیا میں نہیں۔ دنیا مادی ہے مادی رشتوں اور تعلقات کے لئے بنی ہے۔ روح بدن میں مقید ہے۔ ہم جنس نظر آجائے تو باہم پرواز کو بے چین رہتی ہے۔