اصغر خان کیس : اسلم بیگ‘ اسد درانی کی نظرثانی درخواستیں مسترد چیف جسٹس نے سابق آرمی چیف کو روسٹرم پر بلا لیا

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ‘ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اسد درانی کی نظرثانی کی درخواستیں مسترد کر دیں اور ڈی جی ایف آئی اے اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کر دئیے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے اصغر خان کیس کے فیصلے پر دائر نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل سے عدالت نے استفسار کیا کہ 2012ء میں کیس کا فیصلہ آیا تھا، کئی برس گزرنے کے باوجود اس فیصلے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ بتایا جائے اب تک اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مﺅقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق معلوم کرنے کے لیے 2 دن کا وقت دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو دن نہیں رات ساڑھے 10 بجے تک معلوم کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔ سماعت آج ہی کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے نظرثانی درخواستیں منظور کیں تو فیصلہ کالعدم ہوجائے گا، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر ذمے داری کا تعین بھی کرے گی۔ سماعت کے دوران سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیا جو ادارے کے خلاف ہو، بطور آرمی چیف کوئی حکم نہیں دیا تھا، پیسوں کی تقسیم سے مجھے کچھ نہیں ملنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونس حبیب سندھ رجمنٹ سینٹر کا کنٹریکٹر تھا جس نے رجمنٹ سینٹر کو مسجد عطیہ کی اور اس کے علاوہ یونس حبیب سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ عدالت نے اسلم بیگ سے کہا ہے کہ کیس کی سماعت کسی صورت ملتوی نہیں کی جائے گی، اگر آپ کے وکیل نہیں ہیں تو دلائل خود شروع کر دیں۔ کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کہاں ہیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وہ موجود ہیں، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل صاحب روسٹرم پر آ جائیں۔ اس موقع پر جنرل (ر) اسلم بیگ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ مجھے صرف ایک روز قبل کیس مقرر ہونے کا بتایا گیا ہے، میں کیس کی تیاری نہیں کرسکا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جنرل صاحب کسی صورت میں کیس کی سماعت ملتوی نہیں کی جائے گی، اگر آپ کے وکیل نہیں ہیں تو دلائل خود شروع کردیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ بھی کسی کیس میں آئے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا جی میں اصغر خان کی جانب سے وکیل ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس کیس کا خلاصہ دے دیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کیس کا خلاصہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں اسلم بیگ‘ اسد درانی‘ یونس حبیب کو فریق بنایا گیا۔ وکیل فرزند اصغر خان مرحوم نے بتایا کہ یونس حبیب اس وقت مہران بینک کے سربراہ تھے۔ سال 1990ءمیں اسمبلی تحلیل کرکے دوبارہ الیکشن کروائے گئے۔ پیپلزپارٹی کے مخالفین کو فائدہ دینے کا فیصلہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کے مخالف سیاستدانوں کو رقوم بانٹی گئیں۔ کیس اعلیٰ عہدیداروں کے حلف کی خلاف ورزی کا بھی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمانڈر کی غیرقانونی بات تسلیم کرنا اسد درانی کیلئے لازم تھا؟ وکیل اسد درانی نے کہا کہ فوجی افسر سپریم کمانڈر کی ہر بات ماننے کا پابند ہوتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا یہ منطق جنگی حالات میں قابل عمل ہو سکتی ہے۔ عام حالات میں اس منطق کا کوئی اطلاق نہیں۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا اسد درانی وعدہ معاف گواہ بننا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یونس حبیب نے رقم لا کر دی جسے ذمہ داران نے تقسیم کیا۔ درخواست گزاران کو سننے کے بعد نظرثانی کا مقدمہ نہیں بنتا۔ سپریم کورٹ نے سماعت ملتوی کر دی، آج دوبارہ سماعت ہو گی۔ مزید برآں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو شیر دل افراد نے بنایا، جسٹس اعجاز افضل بھی انہی شیردل افراد میں شامل ہیں، بہادر افراد ہی پاکستان کو نئے افق تک لے کر جائیں گے۔ پیر کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس اعجاز افضل خان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز افضل خان کی دانش اور فراست ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو شیردل افراد نے بنایا، بہادر افراد ہی پاکستان کو نئے افق تک لے کر جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اعجاز افضل ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جو حق پر ڈٹ جاتے ہیں، جسٹس اعجاز افضل کے فیصلے قانون میں سنگ میل کے طور پر جانے جائیں گے۔
سپریم کورٹ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...