پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ‘ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار

احمدجمال نظامی
موجودہ حکومت کی طرف سے چھٹا وفاقی بجٹ پیش کرنے کے حوالے سے صنعتی، تجارتی، زرعی اور عوامی حلقوں کی طرف سے سب سے زیادہ احتجاج اور تشویش کا اظہاراس امر پر کیا جا رہا تھا کہ بجٹ پیش کرنے کے فوری بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ کی بنیاد پراضافہ ہورہاہے، ماضی میں پیپلزپارٹی کی حکومت ایسے اقدامات اٹھایا کرتی تھی اوراس حکومت کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر غیرفطری انداز میں بھاری بھر کم ٹیکسز کی بناء پر ان مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سوموٹو ایکشن لیا تھا اور ان قیمتوں کو ریورس کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ اس حکم نامے کے خلاف پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے صدارتی آرڈیننس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لیوی مارکنگ ٹیکس کی منظوری دے دی تھی۔موجودہ حکومت نے بھی اب یہی وطیرہ اپنا لیا ہے۔یہ کہنا بے جا نہیں کہ ہمارے ملک کی معیشت کے بارے میں جس قسم کے دعوے کئے جاتے اور غربت کے خاتمے کے جتنے بھی اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں وہ زمینی حقائق سے مماثلت نہیں رکھتے جبکہ صنعتی پیداوار سے لے کر برآمدات اور زرعی خوشحالی کے تمام دعوے اوراعدادوشمار جن کا سہارا حالیہ بجٹ برائے مالی سال 2018-19ء پیش کرتے ہوئے بھی لیا گیا ہے یہ سب بھی گھاس کے بورے میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافے سے ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے ملک میں جس طرح پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بین الاقوامی نرخوں کے مقابلے میں زیادہ ہیںاس پر 35فیصد تک مختلف ٹیکسز عائد کئے گئے ہیں۔ حکومت عالمی نرخوں کو جواز بنا کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف اور صرف اپنی آمدن اور اخراجات میں توازن برقرار رکھنے کے لئے کرتی ہے،ہمارے قرضہ جات حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں 2013ء کے عام انتخابات کے بعد 14کھرب کے قرضہ جات حکومت کو اعدادوشمار کی صورت میں ملے جسے دسمبر 2017ء تک 21کھرب تک پہنچا دیا گیااس طرح سے ملک کی جی ڈی پی میں ملکی و غیرملکی قرضوں کی شرح 74فیصد تک تجاوز کر چکی ہے۔ملک میں افراط زر اور جی ڈی پی گروتھ ریٹ کے ایسے ایسے مسائل جنم لیتے ہیں جس وجہ سے ہماری حکومت کو خود ہی باامر مجبوری روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے تاکہ کم از کم ہم اپنا سرکلر ڈیبٹ اور زرمبادلہ کے ذخاـئر جیسے مسائل پر قابو پا سکیں۔ برآمدات کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی درآمدات پر قابو پانے کے لئے بھی ہماری حکومت نے چھ ماہ پہلے کچھ ٹیکسز اور پالیسیز کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد برآمدات کی نسبت درآمدات کی بڑھی ہوئی شرح کو قابو میں رکھنا تھا،حکومت جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تو اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ اس صورت میں ہمارا پیداواری شعبہ بری طرح متاثر ہو گا اور اندرون ملک صنعتی، تجارتی اور زرعی بدحالی و بحران کی صورت میں کئی طرح کے مسائل جنم لیں گے۔ بیروزگاری، غربت اور افلاس میں تو اضافہ ہو گا ہی جبکہ پیداواری لاگت زیادہ ہونے سے مختلف مصنوعات کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں ہماری مصنوعات کو دیگر مسابقتی ممالک کے ساتھ موازنے کی صورت میں ردکر دیا جائیگا، حکومت نے پورے پانچ سالوں کے دوران ان عملی اور بنیادی ضرورت کے تقاضوں کو نظراندازکیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وزیرخزانہ پاکستان کی معیشت کو دنیا کی 24ویں بڑی معیشت قرار دے رہے ہیں تو اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اسی طرح حکومت نے بجٹ میں غربت کے خاتمے کے لئے صرف 68کروڑ 80لاکھ روپے مختص کر کے سب کو حیران و پریشان کر رکھا ہے کہ ایک طرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، زرمبادلہ کے ذخائر اور افراط زر جیسے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی درآمدات میں کمی کے لئے پالیسیز کا اعلان کیا جاتا ہے اور کبھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو عرصہ دراز تک مصنوعی انداز میں مستحکم رکھنے کے بعد اس کی قیمت کو بڑھنے دیا جاتا ہے۔حکومت معیشت کے تمام خدوخال اور حقیقی اعدادوشمار کو مدنظر رکھے تو کسی حد تک پٹرولیم مصنوعات پر بھاری بھر کم ٹیکسز کو ذہن میں رکھتے ہوئے سبسڈی کی سوچ کی طرز پر ان قیمتوں کو ایک نرخ پر ایک مخصوص دورانیے کے لئے برقرار رکھ سکتی ہے تاکہ پیداواری شعبہ متاثر نہ ہو اور ملک میں معیشت کی مضبوطی کے لئے درکار اقدامات کئے جا سکیں لیکن افسوس ایک طرف حکومت ہر سالانہ بجٹ میں ٹیکس کولیکشن کا ہدف پورا کرنے میں ناکام ہوتی ہے اور دوسری طرف عوام پر بلواسطہ اتنے ٹیکسز کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔یادرہے کہ ہمارے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈاراپنے دور میں سیلزٹیکس کی شرح بڑھا چکے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن