سلیم ناز
سیٹ ڈیزائننگ ڈرامے کا سرورق یعنی پہلا صفحہ ہوتا ہے پوری دنیا کی تھیٹر کی تاریخ کی سٹڈی کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تھیٹر اور اوپر ڈراموں اور لوگ داستانوں میں سیٹ ڈیزائننگ نے ہی مرکزی کردار ادا کیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ یونان سمیت دنیا کی ہر قوم نے پہلے پہل ڈرامے اور تھیٹر کی بنیاد اپنی اپنی لوگ داستانوں کی اور اپنی لوگ داستانوں کی منظر نگاری اور ماحولیاتی اظہار کیلئے سیٹ ڈیزائننگ کے ابتدائی خدوخال وضع کئے پاک و ہند کی ڈرامے کی تاریخ بڑی دلچسپ اور پرانی ہے ابتداء میں مختلف ڈرامہ کمپنیوں کھلے میدانوں میں مٹی کا ڈھیر لگا کر فروخت کے مطابق اسٹیج (تھڑا) تیار کرواتے اسٹیج پر مختلف پردے جن پر لوگ داستانوں کی منظر کشی کی ہوتی استعمال کرتے اور پھر یوں موضوع کی مناسبت سے پردوں پر بنائے گئے مناظر کو بطور سیٹ مدتوں کام میں لایا جاتا رہا ۔ گویا سیٹ ڈیزائننگ کی اہمیت اور افادیت کو ہر دور میں تسلیم کیا جاتا رہا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسٹیج ڈرامے کا پردہ اٹھتے ہی جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے وہ ڈرامے کا سیٹ ہی ہوتا ہے جس کی ڈیزائننگ اور پیدا کردہ ماحول سے نہ صرف کہانی کے داخلی و خارجی تیور نمایاں ہوتے ہیں بلکہ لگائے گئے سیٹ کے ذریعے علاقے کی مخصوص تہذیبی روایت اور ثقافت کی نمائندگی کا اظہار بھی سامنے آتا ہے ۔ اگر سنجیدگی اور انصاف سے کام لیتے ہوئے سیٹ ڈیزائننگ کے شعبے کی باریکیوں پر توجہ دی جائے تو یہ فن کسی بھی طور ایسا نہیں کہ جسے ڈرامے یا فلم کا اہم ستون تسلیم کیا جائے ۔ ماضی میں بننے والی لازوال فلمیں مثلاً مغل اعظم ، تاج محل ، انار کلی ، عدل جہانگیر ، نور جہاں ، آن ، رضیہ سلطانہ ، ٹیپو سلطان نہ صرف اپنی موضوعاتی کشش اور توجہ کے سبب مقبول ہوئیں بلکہ ان فلموں میں حقیقت کا رنگ بھرنے والے لمحہ بھر کیلئے نکال دئیے جائیں تو ان فلموں کی کہانیوں میں سوائے اعلیٰ پائے کی اداکاری اور موسیقی کے کیا رہ جائے گا جبکہ خوب صورت سیٹوں کے ذریعے ہی ہمیں ان فلموں میں ایک جیتی جاگتی تاریخ سانس لیتی نظر آتی ہے ۔
اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان میں بازار حسن کے موضوعات پر بننے والی ہر فلم کا انحصار ان میں پائے جانے والے اس ماحول کا ہے جس پر سیٹ ڈیزائنر کی محنت اور فنکاری سے حقیقت کا گمان ہوتا ہے ۔ کانی نویس کے بیادہ کردہ مناظر اور ماحول کو کپڑوں کی چار دیواری گتے کی محرابوں ، بانس کی تیلوں (تیلیوں) اور کاغذی دروازوں ، برآمدوں اور لکڑی کے عارضی زینوں کو پردوں پر بنی بالائی منزلوں سے ملا دینے کا کام بظاہر جتنا آسان دکھائی دیتا ہے ۔ یہ اتنا ہی مشکل اور فنی مہارت کا طلب گار ہے جو ایک اچھا سیٹ ڈیزائنر ہی بناسکتا ہے جس میں مصورانہ انداز فکر ، فن تعمیر کے رموز سے آشنائی کے علاوہ اس اعلیٰ پائے کی فہم موجود ہو کہ جو کہانی میں موجودہ ماحول اور محسوس کئے جانے والے مناظر کو حقیقی وجود میں ڈھال سکے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک سیٹ ڈیزائنر بنیادی طور پر بیک وقت ایک مصور ، ایک آرکیٹیکٹ اور تعمیرات مہارت کا حامل ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک اچھے سیٹ ڈیزائنر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ڈیزائن کردہ سیٹ میں اپنی تہذیبی اور ثقافتی روایات کو کس حد تک نمایاں اور زندہ رکھتا ہے صد افسوس کہ فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں کی طرح سیٹ ڈیزائننگ کا شعبہ تقریباً ختم ہونے کو ہے آج کے ’’ اپ سیٹ‘‘ تھیٹر میں سیٹ کی روایت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ تھیٹر کی صاف ستھری روایات کے زمانے میں ناقابل فراموش سیٹ ڈیزائننگ کی گئی جو اب خواب بن کر رہ گئی ہے ۔