میٹھی دھنیںبنانے والے  فلم ، ٹی وی اور ریڈیو کے موسیقار کریم شہاب الدین  

May 08, 2018

تحریر  شاہد  لطیف


موسیقی کی دنیا کا آغاز کریم شہاب الدین نے آغا خان آرکسٹرا بمبئی، بھارت سے شروع کیا۔وہاں پر اُن کے ہم عصر مشہور موسیقار جوڑی، کلیان جی آنند جی تھے، جِن کے ساتھ اُن کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ پھر وہ ڈھاکہ ،  مشرقی پاکِستان چلے آئے اور یہیں سے فِلموں میں موسیقی کا آغاز کیا۔  
راقِم نے اِن کے ساتھ خاصہ عرصہ گزارا ہے۔ اُن میں ٹیم کو ساتھ لے کے چلنے کی قائدانہ صلا حیت تھی۔ہر ایک سازندے کا حوصلہ بڑھایا کرتے تھے ۔ اسٹیج کی لایئو ریکارڈنگ ہو یا کوئی آڈیو / ویڈیو ریکارڈنگ، کریم بھائی کی موجود گی بھر پور ہوا کرتی تھی۔نیہایت ہی اچھے منتظم اور اپنے مزاج اور مصروفیت دونوں میں غضب کی لچک رکھتے تھے۔ ایسی لچک میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ کریم بھائی   ریکارڈنگ یا ریہرسل میںآنے سے پہلے یہ ذہن میں رکھ کر آتے کہ دُھن اور پیسوں pieces   کے لئے کون سے ساز بہترہوں گے  اور کِن سے کیا پیس بجوانا ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ گیت کی شاعری اور سازوں کے امتزاج سے وہ تاثر پیدا ہو جو سُننے والوں کو بھلا لگے۔  
میلوڈی  melody  یا گیت کی نغمگی کا مجموعی تاثر کریم بھائی کے ہاں اوّل تا آخر قائم رہتا ہے۔ میلوڈی کی یہاں چند  مِثالیں دی جاتی ہیں:   ؎وہیں  زندگی   کے  حسیں  خواب   ٹوٹے
میرے ہمسفر  تم  جہاں  ہم  سے  چھوٹے
اِس گیت کو صہبا  اختر نے لکھا ( شاعر صدیقی کا بھی نام لیا جاتا ہے) اور گلوکار جمال اکبرتھے۔
کہاں ہو  تُم چلے  آ ئو  محبت کا  تقاضہ  ہے
غمِ  دنیا سے گھبرا کر تمہیں دِل نے  پُکارا  ہے   اِس گیت کے شاعر جناب شاعر صدیقی اور گلوکارہ شہناز بیگم تھیں۔
اِن گیتوں کو آپ سُنیں تو اب بھی کانوں کو بہت بھلے لگتے ہیں ۔
کریم بھائی کا ایک تاریخ ساز گیت:
دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں 
ایسا نشہ تیرے پیار نے دیا
سوچا نہ تھا، کھو گئے سپنوں میں ہم
اب بھی ویسا ہی مقبول ہے جیسا پہلے روز تھا۔پورے ملک میں شاید ہی کوئی خوشی کی تقریب ہو جہاں یہ گیت نہ گایا جا تا ہو۔
کریم شہاب الدین کو  برِ صغیر پاک و ہند میں مرو جہ آرکیسٹریشن  Orchestration  کے مختلف اِسٹائل پر کمال کا علم تھا؛  جِس کے وہ تجربات بھی کرتے رہتے تھے۔ صحیح معنی میں وہ ایک تخلیق کار تھے۔اُن کی تخلیق کا میدان گیت کی چال ، وزن یا میٹر  meter  ، سُر  key ، سازوں کا انتخاب اور پھر اُن سب سے ایک ساتھ کام لینا تھا۔وائلن کے خاندان کا ایک ساز ’  چیلو ‘   cello ہے۔ ہمارے ہاں نہ جانے کیوں اسے غم کا ساز سمجھ کر کبھی کبھار ہی فلمی گیتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔میں نے کریم بھائی کے ہاں اِس کا خاصہ استعمال دیکھا۔ انہوں نے ’  چیلو ‘ کو ہر ایک موقع پر استعمال کیا۔اِس طرح اُس کے غم کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ چیلو سے متعلق ایک بات پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے لکھتا چلوں۔ وہ یہ کی یورپ میں اِس ساز کو اِنسانی آواز کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے جبکہ ہماری ’ سارنگی ‘  اِس کے مُقابلے میں اِنسانی آواز سے کہیں زیادہ قریب ہے۔آپ انٹرنٹ پر دونوں سازوں کا  سولو  solo  تقابل کر سکتے ہیں۔
فلم چاند اور چاندنی کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اپریل  1968 کو اِس فلم کی نمائش شروع ہوئی۔مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان اور اِس سے آگے دنیا بھر میں جہاں جہاں اُردو گیت  سُنے جاتے تھے اِس فلم کے گیتوں نے دھوم مچا دی ۔ کریم شہاب الدین کی موسیقی نے اِس فلم کو چار چاند لگا دئے۔یوں یہ فلم کئی ایک لوگوں کی قسمت کھول گئی جیسے:
 اداکار ندیم فلم ’ چکوری ‘ ( 1967 )میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے تھے مگر چاند اور چاندنی نے اُن کی مقبولیت پر مہر ثبت کر دی ۔ 
 سرور بارہ بنکوی سے کون واقف نہیں۔اِس فلم میں اِن کے لکھے ہوئے تقریباََ تمام گیت سُپر ہِٹ ہوئے جن کی موسیقی کریم شہاب الدین نے ترتیب دی تھی:’’ جانِ تمنا خط ہے تمہارا، پیار بھرا افسانہ…  آواز احمد رشدی‘‘، ’’تیری یاد آ گئی، غم خوشی میں ڈھل گئے…  آواز مسعود رانا‘‘،’’ یہ سماں موج کا کارواں…آواز مالا‘‘، ’’ اے جہاں اب ہے منزل کہاں…آواز احمد رشدی‘‘، ’’ دو پیار کی باتیں ہو جائیں…آوازیں مالا اور احمد رشدی‘‘۔’’لائی گھٹا موتیوں کا خزانہ…آواز مالا اور ساتھی‘‘  او ر’’ تجھے پیار کی قسم ہے میرا پیار بن کے آ جا…آواز مسعود رانا‘‘۔
 مسعود رانا کا پہلے ہی فِلمی گلوکار کی حیثیت سے ایک نام تھا ۔ اِس فلم کے ایک گیت ’  تیری یاد آ گئی، غم خوشی میںڈھل گئے …‘  نے اِن کو دوام بخش دیا۔ گو کہ وہ اِس دارِ فانی سے 4   اکتوبر  1995 کو  کوچ کر گئے مگر آج بھی پورے مُلک کے ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن، اُسکے FM 101    اور پورے مُلک کے دیگر FM   ا سٹیشنوں سے روزانہ  مذکورہ گیت نشرہوا کرتا ہے۔اور رات گئے شعر و شاعری والے  FM  ریڈیو پروگراموں میں بھی اِس گیت کا ہونا لازمی ٹہرتا ہے۔
فلم ’  شرمیلی ‘  جو  1978   میں نمائش کے لئے پیش ہوئی اُس میں یونس ہمدم کے لکھے ہوئے ایک لا زوال گیت کو عوام میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی:’’جی رہے ہیں ہم تنہا اور تیرا غم تنہا، کیسے ہم اآٹھائیں گے تیرا ہر ستم تنہا…‘‘۔ کریم شہاب الدین کی موسیقی اوریونس ہمدم صاحب کی شاعری کو  اے  نیّر نے ایسے ڈوب کر صدا بند کروایا کہ وہ اُنکے پہچان گیت کی حیثیت اختیار کر گیا۔ جہاں بھی اے نیّر نے  گلوگاری کی وہاںاُن سے اِس گیت کی ضرور فرمائش کی گئی ۔
 70  کے اواخر میں راقم نے کریم شہاب الدین کو مُحسن شیرازی کے لایئو  اسٹیج شو  ’  فروزاں ‘  میں دیکھا۔ پھر قسمت مجھے پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی مرکز میں لے آئی۔ جہاں اُن دِنوں سہیل رعنا، کریم شہاب الدین، غلام نبی ( مرحوم عبدلطیف کے ساتھ اُن کی جوڑی ’  غلام نبی عبدلطیف‘ کے نام سے مشہور تھی۔ اِن کی مشہور ِ زمانہ اُردو فلم ’’  آگ کا دریا ہے ‘‘  )  نیاز احمد، فیروز گُل، جاوید اللہ دتّہ،  اختر اللہ دتّہ اور زیڈ ایچ فہیم صاحبان کا بہت نام تھا۔ نثار بزمی صاحب کا کراچی مرکز کے لئے پہلا موسیقی کا پروگرام ریکارڈکروانے کا اعزاز اِس خاکسار کو حاصل ہے۔  
 میری خوش قسمتی ہے کہ موسیقی کے اوّل اوّل جو پروگرام دئے گئے اُس میں میری بھی رائے لی گئی، اس پر خاکسار نے شبی فاروقی اور کریم بھائی کی جوڑی منتخب کی۔کام کے معاملے میں یہ دونوں افراد ’  جِن ‘  تھے۔وہ ایسے کہ کام کے وقت نہ دِن کو دِن اور نہ رات کو رات سمجھتے تھے۔ حیرت ناک بات یہ کہ گھنٹوں کی محنت کے بعد بھی بالکل ترو تازہ اور نئے کام کے لئے ایک دم تیار رہتے تھے۔
کریم بھائی دیگر شعراء کے ساتھ بھی اُسی تیز رفتاری سے کام کر اور کر وا  لیا کرتے تھے۔ طارق عزیز کے نیلام گھر میں ایک عرصہ کریم بھائی نے موسیقی ترتیب دی۔اِس میں مُستند گلوکاروں کے ساتھ سا تھ انہوں نے کئی ایک نئی آوازیں بھی روشناس کرائیں۔راقِم  نے کراچی کے ’  انٹر نیشنل فلم اسٹوڈیو ز ‘  میں اطہر خان صاحب المعروف جیدی بھائی کی ذاتی فلم ’  آس پاس ‘  میں کریم بھائی کو پس منظر موسیقی دیتے ہوئے دیکھا۔
اب  ایک ا یسے کام کا ذکر ہو جائے جو واقعی ایک ’  جنّاتی ‘ کام تھا۔  پی ٹی وی ایوارڈ  1981  کے سلسلہ میں مجھ کو اُس شو کے میوزک سیکشن کو سنبھالنے کی ذمّہ داری دی گئی تھی۔میں نے کریم بھائی سے کہا کہ شو تو ہوتے ہی رہتے ہیں ، یہ بھی ہو ہی جائے گا ، اب ایسا کام کیجئے کہ یادگار رہ جائے۔تو جو نیا کام ہوا وہ ’  بینگ ‘  bangs  تھے۔ اُس تقریب میں راقِم نے شو کے منتظمین سے تمام متوقع شراکاء  کی فہرست لے لی  جو   80 سے زیادہ تھی۔اب کریم بھائی نے 100 کے قریب بینگ تیّار کئے۔ہر بینگ جُدا۔ یعنی کوئی بھی دو بینگ  ایک جیسے نہیں تھے۔اب کسی نے یہ نوٹ کیا یا نہیں البتہ ایسا کام پھر اِس کے بعد کوئی کر نہ سکا۔ اِس کے علاوہ تمام مشہور فنکاروں نے جو گیت ؍ غزل سُنانا تھیں اُن کو کراچی میں مکمل میوزک شیٹس پر لکھوایا گیا تا کہ لاہور کے فِلمی سازندے اُ ن شیٹوں کو سامنے رکھ کر بس ایک ریہرسل میں رواں ہو جائیں۔یہ خاکسار اُس پروگرام کے میوزک سیکشن کاذمّہ دار تو تھا ہی ، لیکن یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ عملاََ راقِم نے کریم بھائی کے اسسٹنٹ کا بھی کام کیا کیوں کہ کسی وجہ سے اُن کا اسسٹنٹ پنڈی نہیں آ سکا تھا۔
1981 کی بات ہے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں خاتون پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے دفتر میں ہمارے مُلک کے ایک عظیم موسیقار جناب نثار بزمی صاحب نے کریم شہاب الدین، جو وہاں پہلے سے موجود تھے ، کو دیکھ کر خوشی سے کہا ’’ کریم شہاب الدین  بہترین ارینجر ہے ‘‘۔یہ بات وہ ہستی کہہ رہی ہے جِس کے بمبئی آرکسٹرا میں لکشمی کانت اور پیارے لال بطور سازندے کام کرتے تھے ۔ میں اِس واقعہ کا شاہد ہوں۔
 نئے پرانے شاعر، سنجیدہ سازندے ، جلد غصّہ میں آنے والے بے چین سازندے، بے لچک اور جگادری سائونڈ انجینئر، اسٹوڈیو  کی بد ذائقہ چائے لانے والے بد دماغ ، فرعونی طبیعت کے ٹی وی اور ریڈیو پروڈیوسر اور وہ بد قسمت بھی جو موسیقی کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے ،  اِن سب سے  واسطہ پڑتا رہتا تھا۔کریم بھائی کو راقِم نے کبھی، کسی بھی صورتِ حال میں آپے سے باہر ہوتے نہیں دیکھا ۔ وہ اِن سب کے ساتھ احسن طریقے سے گزارا کرتے تھے۔ ہائے !  اب ایسے لوگ کہاں۔۔

مزیدخبریں