سپریم کورٹ نے اصغر خان علمدر آمد کیس کی سماعت کے دوران 1990کے انتخابات میں دھاندلی میں ذمہ دار سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا.چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اور ڈی جی ایف آئی اے عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اصغر خان کیس میں فیصلہ دے چکی ہے، نظر ثانی کی درخواستیں خارج کی جا چکی ہیں، اب عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد ہونا ہے، عدالتی فیصلوں پر من وعن عمل ہونا چاہیے، فیصلہ میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم حکومت کو دیا گیا لیکن وفاقی حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد آج تک کوئی ایکشن نہیں لیا، ایف آئی اے کی تحقیقات بھی ایک جگہ پر رک گئی، یہ نہیں معلوم آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنتا ہے یا نہیں،معاملہ ایف آئی اے میں جانا ہے یا نیب میں جانا ہے؟۔ کیا سابق فوجی افسروں کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ سابق فوجی افسروں کا ملٹری کورٹ میں ٹرانزٹ ہونا چاہیے، آئین کی ہر خلاف ورزی آرٹیکل 6 کے زمرے میں نہیں آتی، سابق فوجی افسروں کا ٹرائل کہاں ہوگا یہ طے کرنا حکومت کا کام ہے، پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کا فیصلہ حکومت نے کیا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اگر کوئی جرم ہوا ہے تو اسکا ٹرائل ہونا چاہیے، اسد درانی اور اسلم بیگ کے بیانات قلمبند نہیں ہوئے، اب ایف آئی اے ان لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرے گی، فوجداری ٹرائل ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد ہو گا۔اصغر خان مرحوم کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف ایکشن اور دیگر کے خلاف تحقیقات ہوں گی۔ عدالت کے سامنے اصغر خان کیس میں بڑے انکشافات ہوئے، سابق فوجی افسران کے جرم کا آرمی ایکٹ، الیکشن ایکٹ اور آئین کے تحت جائزہ لیا جائے، ملٹری کورٹ میں کس جرم کا ٹرائل ہوگا یہ طے ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ حکومت 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار سابق فوجی افسران کے خلاف ایک ہفتہ میں کارروائی کا فیصلہ کرے، یہ فیصلہ کابینہ اجلاس میں کیا جائے، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ فیصلہ کے لیے دو ہفتے دے دیں جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا۔ کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔