تھیلے سیمیا ڈے

May 08, 2019

محمد یٰسین خان

8 مئی تھیلے سیمیا کا بین الاقوامی دن تھیلیسیمیا کے مریضوں اور ان کے والدین کے ساتھ ان مریضوں کے اعزاز میں منایا جاتا ہے جو بیماری کے بوجھ کے باوجود اپنی زندگی سے ناامید نہیں ہوتے۔ محقق اور محسن اس بیماری میں مبتلا مریضوں کا معیار زندگی بہتر بنانے اور مرض کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہی محسنوں میں ایک ایسا نام جو زبان زدعام ہے وہ منو بھائی اور سُندس فاونڈیشن کا ہے۔ تھیلے سیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے۔ جینیاتی اعتبار سے تھیلے سیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں: ایک الفا تھیلے سیمیا اور دوسری بیٹا (Beta) تھیلے سیمیا ۔ جبکہ مرض کی شدت کے اعتیار سے اس کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی تھیلے سیمیا میجر، دوسری تھیلے سیمیا انٹر میڈیا اور تیسری تھیلے سیمیا مائنر ہے جسے کیریئر بھی کہتے ہیں۔ ایسا جوڑا جو تھیلے سیمیا مائنر میں مبتلا ہو اگر آپس میں شادی کر لیں تو 25 فیصد متوقع ہے کہ آنے والا بچہ تھیلے سیمیا میجر میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ تھیلے سیمیا میجر کے مریض بچے کو پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد سے ہی خون کا انتقال شروع ہو جاتا ہے اور تاحیات جاری رہتا ہے۔ اس بیماری کا مکمل علاج بون میروٹرانسپلانٹ ہے۔ یہ علاج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ متواتر خون کے انتقال کی وجہ سے مریض کے جسم میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کا ادویات کی صورت میں بروقت جسم سے اخراج نہ کیا جائے تو مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
(Universal Access to Quality Thalassaemia Healthcare Service: Building Bridges with and for Patients) جس کا مقصد تھیلے سیمیا کے مریضوں کے لئے بین الاقوامی سطح پر میعاری علاج و معالجہ کی فراہمی اور مریضوں کے ساتھ اور ان کے لئے باہمی تعاون کو پروان چڑھانا ہے۔پاکستان میں تھیلے سیمیا کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان تھیلے سیمیا میجر سے متاثرہ بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہمارے ملک میں نیشنل ڈیٹابیس نہ ہونے کی وجہ سے تھیلے سیمیا سے متاثرہ مریضوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے جبکہ ہر سال تقریباً 6 ہزار بچے تھیلے سیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ موروثی مرض سے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے اس مرض کے پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی دونوں کا تھیلے سیمیا کیریئر ٹیسٹ ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو موذی موروثی مرض سے محفوظ کیا جا سکے بلکہ قومی شناختی کارڈ پر تھیلے سیمیا ٹیسٹ کا اندراج ہو تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ بیماری منتقل نہ ہو سکے۔ پاکستان میں تھیلے سیمیا پر قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ایران، مالدیپ، سائپرس وغیرہ میں مناسب قانون سازی کے ذریعے ہی تھیلے سیمیا کا تدارک ممکن ہوا ہے۔ یہاں پر یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ تھیلے سیمیا کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔اس بیماری کے ماہانہ علاج پر ادویات اور انتقال خون کی مد میں 20,000 سے 25,000 روپے خرچ آتا ہے جو کہ ایک غریب آدمی کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ خرچ مختلف فلاحی ادارے برداشت کرتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف ارباب اختیار اور دیگر مخیر حضرات کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ سندس فائونڈیشن جیسے ادارے نہ صرف ان تھیلے سیمیا میں مبتلا بچوں کے لئے صحت مند انتقال خون کی فراہمی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں بلکہ سندس فائونڈیشن نے اس بیماری سے خاتمے کے لئے جدید مشینوں سے آراستہ لیبارٹری کا قیام اور ایک منصوبہ SUNMAC کو متعارف کروایا ہے جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر مریضوں کے لواحقین اور عوام الناس کو تھیلے سیمیا کیریئر کے لئے مفت جانچا جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں سے اس موذی بیماری کا خاتمہ کیا جا سکے اور صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ تین دہائیوں سے پہلے اس مرض میں مبتلا بچوں کی اوسط عمر 8 سے 12 سال ہوا کرتی تھی لیکن سندس فائونڈیشن اور اس جیسے دیگر اداروں کی بدولت بتدریج جدید ٹیکنالوجی، موثر ادویات، صحت مند خون اور معیاری علاج معالجہ کی بدولت ان مریض بچوں کی عمریں 35 سے 40 سال ہو چکی ہیں۔ ان میں اکثر مریض بچے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر کے معاشرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں اور معاشرے پر بوجھ نہیں ہیں۔ تعیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہیں اور کئی اپنے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔میں یہاں پر حکومت پنجاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو سندس فائونڈیشن، فاطمید فائونڈیشن، تھیلے سیمیا سوسائٹی آف پاکستان اور دیگر اداروں جو کہ تھیلے سیمیا کے مریضوں کے لئے کام کر رہے ہیں ان کی مالی معاونت کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی زیر نگرانی پنجاب تھیلے سیمیا پریوینٹیشن پروگرام کا دائرہ کار پنجاب کے تمام اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے۔ یہاں پر سابق وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی جنہوں نے تھیلے سیمیا کے اداروں، مریضوں اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔حکومت کو چاہئے کہ تھیلے سیمیا کے مریضوں کے علاج معالجہ کیلئے جو ادارے اور لوگ شب و روز محنت کر رہے ہیں ان کو خراج تحسین پیش کریں، قومی اعزازات سے نوازیں نہ کہ سفارشی لوگوں کو ایوارڈ دیے جائیں۔ تھیلے سیمیا کے بچوں کے علاج معالجہ میں استعمال ہونے والی ادویات نہایت مہنگی ہونے کے سبب تھیلے سیمیا کے بچوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ میری وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ ان تمام ملٹی نیشنل دواساز کمپینوں کو بھی کنٹرول کریں جن کے نرخ آسمان کی بلندیوں کی چھو رہے ہیں تاکہ تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کے علاج معالجہ میں رکاوٹ نہ آسکے۔آخر میں ان تمام مخیر حضرات اور بلڈڈونرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو سندس فائونڈیشن اور ان جیسے اداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

مزیدخبریں