میرے بابا مہندی نہیں، قلم دو

May 08, 2019

جہاں آراء وٹو

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک خاص تصویر سامنے آئی جس میں دس سال کی بچی دلہن بنی کھڑی ہے اور اس کے ساتھ کم ازکم 40 سالہ مرد ہے جس سے اس کا نکاح ہونے جا رہا تھا۔ بچی کی آنکھوں میں بے بسی، لاچاری اور ایک پکار ہے کہ خدارا مجھے بچا لو۔ یہ واقعہ سندھ میں ہونے جا رہا تھا لیکن چونکہ وہاں کی قانون ساز اسمبلی لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال متعین کر چکی ہے اس لیے اس بچی کو بروقت اس ذہنی اور جسمانی تشدد سے بچا لیا گیا اور اُس سے زبردستی نکاح کرنے والے مرد کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
جس وقت یہ واقعہ سامنے آیا۔ ایوان بالا یعنی کے سینٹ میں چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 1929ء کے تحت بچیوںکی شادی کی عمر 18 سال کرنے تک بڑھانے کابل پیش کیا گیا۔ اس سے پہلے اس ایکٹ کے تحت بچیوں کی کم ازکم شادی کی عمر 16 سال اور لڑکوں کی عمر 18 سال مقرر ہے۔
یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کم عمر دلہنوں کی تعداد 1,90,9000 ہے۔ پاکستان میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی جو کافی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ دیہاتی علاقوں میں انتہائی غریب والدین جو کہ بمشکل دو وقت کی روزی روٹی کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے لڑکی ایک بوجھ کی صورت ہوتی ہے اور وہ جلدازجلد اس کو کسی اور کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظر میں لڑکا تو باہر جا کے کچھ کما کر لا سکتا ہے۔ لیکن لڑکی صرف گھر کے کام کاج اور خدمت ہی کر سکتی ہے اس لیے وہ جلداز جلد اس کو کسی اور کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کو کسی سے جھگڑے، قرض، قتل و غارت کی صورت میں صلح کی پیشکش کے طور پر بھی دیا جاتا ہے۔جب بھی کبھی پاکستان میں اس ایکٹ میں مختلف مثالیں دیجاتی ہے۔ اور رسول اللہﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ آپ لوگ جتنے بھی حوالے اُٹھا کر مطالعہ کریں گے کہیں بھی حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں حتمی نہیں کہا گیا کہ رخصتی کے وقت اُن کی کیا عمر تھی۔ مذہب کے نام پر آخر کب تک ہم اپنی آنے والی نسلوں کا استحصال کریں گے۔ مذہب کو اپنی سہولت کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہم نے کاروبار بنا لیا ہے۔ جہاں بات نہ بنے وہاں مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ اسلام وہ دین ہے جس میں عورت کو حقوق دیئے گئے۔ 1400 سال پہلے عورتیں کاروبار کرتی تھیں، جنگیں لڑتی تھیں اور ہنر سیکھتی تھیں۔ اسلام نے تو آ کر عرب میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت ختم کر دیا۔ اسلام علم کی ترغیب دیتا ہے جہالت کی نہیں اور اس میں لڑکے و لڑکی کی تفریق نہیں کی گئی۔ اس وقت عمان، متحدہ عرب امارات، ترکی، انڈونیشیا جو کہ سب مسلمان ممالک ہیں میں کم از کم شادی کی عمر 18 سال ہے۔
اور پھر آگے چل کر اگر ہم آج سے 90 سال پہلے جب 1927 میں یہ ایکٹ قانون ساز اسمبلی میں پیش ہوا تو یہ بل اُس وقت ایک ہندو ممبر رائے ہری داس سردا کی طرف سے پیش کیا گیا۔ اس لیے جس کو سرد ابل بھی کہا جاتا تھا۔ اس وقت بھی اس بل کی مخالفت میں ہندو، مسلمان اور بنیاد پرست میدان میں آگے۔ 707 پٹیشن اس بل کے خلاف جمع کروائیں گئیں جس پر ہزاروں لوگوں نے دستخط کیئے۔ فتوے جاری کئے گئے اور کہا گیا کہ اس بل کی وجہ سے مذہب کو خطرہ درپیش ہے۔ لیکن اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے اس بل کی کھل کر حمایت کی اور ڈٹ کر کہا۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ اس طرح کے شیطانی عمل کے لیے اجتماعی منظوری کیسے دی گئی ہے۔ اور ہمیں ایک منٹ کے لیے بھی اس بدعملی کو جاری رکھنے کے لیے ساتھ نہیں دینا چاہیے اس ظالم، خوفناک، شرم ناک اور غیر انسانی عمل کو پھیلانے کی کس طرح سے انڈیا میں کھلے عام اجازت ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ہمیشہ سماجی اصلاح کا رکا سامنا راسخ العقیدہ سوچ کے ساتھ ہوتا ہے کٹر سوچ رکھنے والوں کے اپنے جذبات ہوتے ہیں اور کسی حد تک وہ اپنی جگہ پر صحیح ہوتے ہیں۔ لیکن کیا ہم ان لوگوں کی وجہ سے جن کا ہم احترام کرتے ہیں دبائو کا شکار ہو جائیں اور اپنے آپ کو ترقی کی راہ پر جانے سے روک لیں۔ میں انسانیت کے ناطے آپ سے سوال کرتا ہوں؟‘‘
کم عمری کی شادی کی بچی کی صحت تباہ ہو جاتی ہے۔ ذہنی و جسمانی طور پروہ بدحالی اور دبائو کا شکار ہو جاتی ہے۔ زچگی کے وقت اموات کی سب سے بڑی وجہ ماں ہے۔ 1000 میں 78 بچے 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پیدائش کے وقت ماں اور بچے کی صحت ہے۔اگر کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اُس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے تعلیم۔ خاص طور پر اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں اگر غریب کی بیٹی بھی پڑھ جائے تو کسی بھی امیر اور طاقت ور کی اولاد کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ حکومت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحدہ ہو کر اس بل کو قومی اسمبلی سے پاس کروانا چاہیے تا کہ ہماری بچیوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔

مزیدخبریں