سیاسی آوے کا آوا ہی بگڑا ہے

صحافت میں جہالت نے پوری قوم کو مریض بنا دیا ہے۔ میرا ایک دوست ڈاکٹر خالد مسعود پچھلے دنوں کہہ رہاتھا کہ اس نے اپنے گھر سے کیبل اتروا دی ہے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کی سہولت ازخود ختم کر دی ہے۔ڈاکٹر ہونے کے باوجود ٹیلی ویژن پر گفتگو سن کروہ اعصابی تنائو محسوس کرتے ہیں لایعنی اور بے معنی بحث پر کڑھتے ہیں۔ خلاف واقعہ باتوں پر رنجیدہ ہوتے ہیں ا ور سیاست دانوں کے رویوں ا ور ان کی ہٹ دھرمی اور تعصب پر بہت زیادہ اعصابی دبائو محسوس کرتے ہیں۔ پوری قوم کو ان اینکروں اور سیاستدانوں نے ذہنی مریض بنادیا ہے۔ مایوسی ، بے یقینی کو غلط اندازوں اور اپنی ذہنی پسماندگی کی وجہ سے بڑھ چڑھ کر پھیلایا جا رہا ہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کی بات پر غور کیاتو تحریک انصاف کے اسد عمر وزیر خزانہ کے منصب چھوڑنے پراپوزیشن کے تبصروں پر اس قدر افسوس ہوا کہ اتنی سیاسی پسماندگی اس سے پہلے سیاست کے ایوانوں نے نہیں دیکھی ہو گی۔ نواز شریف کی حکومت میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہنے والے خورشید شاہ کو اگرچہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ یا بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ رئیسانی کی قبیل میں ہی رکھا جا سکتا ہے مگر وہ خود کو بہت بڑا پارلیمنٹرین سمجھتے ہیں۔ آئین کی اتنی سوجھ بوجھ کہ اپنی جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے آئین کو تہس نہس کرنے پر شرمندہ ہونے کی بجائے اٹھارویں ترمیم کا کریڈٹ لیتے رہتے ہیں۔ بغلیں بجا رہے ہیں، اگر پاکستان میں آئین کی صحیح حکمرانی کا کبھی دور آیا تو عمران خاں پر آئین کی دفعہ 6 لگانے کا بلا وجہ مطالبہ کرنے والے خورشید شاہ دیکھیں گے کہ اٹھارویں ترمیم کے ذمہ داروں پر دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلے گا۔ پیپلز پارٹی اسے اپنی سیاسی زندگی کی شہ رگ اس لیے سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم اس کی قیادت کی لوٹ مارکو تحفظ بھی دیتی ہے اور لوٹ مارکرنے کی شہ بھی۔
نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا سودا کر کے ترمیم لانے پر اس ریکارڈ میں ترمیم کو قبول کیا۔ باقی اس پر دستخط کرنے والے اس انتہائی سنجیدہ قومی مقابلے پر آسانی سے اس لیے گمراہ ہو گئے کہ انہیں اس کے دوررس اثرات اور 1973ء کی رٹ کو مجروح کرنے کے جرم اور اس کی سزا کا اندازہ ہی نہیں ۔اسد عمر کے استفسار پر یہ کہنے والے پیپلز پارٹی کے یہ لیڈر تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کی جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے سب سے اہم رکن میاں محمود علی قصوری نے وزارت سے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب پاکستان کا آئین بن رہا تھا اور میاں محمود علی قصوری اس کے مرکزی اور کلیدی خاکہ ساز تھے ، عمر، تجربے ، صلاحیت اور سوجھ بوجھ میں قصوری صاحب سے بہت ہی کم اس وقت کے سوہنے منڈے حفیظ پیرزادہ کو بھٹو نے وزارت قانون کا قلمدان دے دیا ا ور آئین سازی کا کام اس شدید دھچکے کے باوجود نہ رکا اس وقت کی اپوزیشن جو شاید پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی مضبوط ترین اپوزیشن تھی اس کے کسی ایک رکن نے اسے بھٹو کی ناکامی اور آئین سازی میں تعطل اور بھٹو حکومت کے خاتمے کی باتیں نہ کیں۔ بھٹو نے اپنے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کو فارغ کر کے رانا حنیف کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ کسی نے اپوزیشن میں نہ طعنے دئیے نہ اسے حکومت کی ناکامی کہا۔
پیپلز پارٹی کے اپنے پچھلے دور میں اسد عمر کی زبان میں چار سورما وزرا ء خزانہ کو تبدیل کیا کسی نے اس طرح کا ری ایکشن نہ دیا جس طرح اسد عمر کے مستعفی ہونے پردیا جا رہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم بننے کے بعد (ن) لیگ کے سیاسی مفاہمت میں وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کوملنے اور جلد ہی اس حکومت سے ن لیگ کی علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی کا اپنا وزیر خزانہ لانا بھی حکومت کی ناکامی کے طعنوں اور سیاسی نعروں کا موجب نہ بنا۔ مگراسد عمر کے استعفیٰ کو اس طرح لینا جیسے پورا نظام ہی لپٹا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی ذہنی پسماندگی اور اصل حقائق اور قومی معاملات سے بے خبری کی چغلی کھاتا ہے۔ میں نے خود عمران حکومت میں اسد عمر اور بعض لوگوں کو ان کے عہدوںسے الگ کرنے کی کئی بار بات کی کیونکہ وہ حضرات ڈلیور نہیں کر رہے تھے۔ ان سے وابستہ ہر توقع ناکام ثابت ہوئی۔ عمران خاں کی انا، ضد مجبوری یا مایوس ہونے کی بجائے امید سے آس لگانے یا پھر کچھ وقت دینے کی پالیسی سے بہت نقصان ہوا ایسے میں تحریک انصاف کے اس بہت مضبوط ستون کا اپنے منصب سے علیحدہ ہونا یا کر دیا جانا اتنے بڑے ری ایکشن کو ہر گز درست قرار نہیں دیتا جس کا مظاہرہ اپوزیشن نے کیا۔ بگڑی ہوئی معیشت اور معاشی طور پر گراوٹ کی دلدل سے نکلنے کے لیے ہوشمندی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ محض نمائشی ہاتھ پائوں مارنے سے دلدل میں دلدل کے مزاج اور ساخت کے مطابق زیادہ پھنسنے اور گہرائی میں گھستے جانے کے زیادہ مواقع ہونگے مگر پیپلز پارٹی تو مشیر خزانہ کے لیے تحریک انصاف کے انتخاب کو اپنا بندہ کہہ رہی ہے اس پر انہیں شاباش دینے کی بجائے کہ انہوں نے معیشت کو سنبھالنے کیلئے سیاسی شریکے کی پرواہ نہیں کی اور شریکوں کا بندہ لے لیا ہے۔ پھر طعنے دینا چھوٹا پن ہے۔
دوسرے ایران میں عمران خاں کے جس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر یا توڑ مروڑ کر سیاست چمکانے کی خورشید شاہ نے کوشش کی اور عمران پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ایسی حرکت کرنے والے کے خلاف خود آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چل سکتا ہے۔ نواز شریف کے بھارت کے متعلق بیان پر تو خورشید شاہ خاموش رہے۔ سکھوں کی فہرستیں بھارت کی حکومت کودینے کاان کی جماعت نے جو ناقابل فراموش کارنامہ انجام دے کر سکھوں کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھارت کی حکومت کی جتنی واضح حمایت اور خدمت کی۔ اس پر آئین کی اسی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کرانے کی بات بھی ان کے منہ سے کبھی نہیں سنی۔ اسد عمر کے وزیر خزانہ کا منصب چھوڑنے ا ور حفیظ شیخ کے مشیر خزانہ بننے سے جادو کی چھڑی چلانے کی توقع تو نہیں لیکن شاید حفیظ شیخ کی سوجھ بوجھ معاشی معاملات کو بہتر انداز سے حل کرنے میں کام آ جائے۔ پنجاب کا معاملہ وزیراعظم کی عدم توجہی کا مسلسل شکار ہے۔
گورنر پنجاب چودھری سرور وضاحتیں بھی کر رہے ہیں اور یہ کلیم بھی کر رہے ہیں کہ ان کی بات مانی جاتی تو پنجاب میں تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت حاصل ہو جاتی۔ وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جسے گورنر استعمال کرنے کا فن اپنی ذات تک چھپائے ہوئے ہیں ا ور وزیراعظم ان کی نہ مان کر پارٹی کا نقصان کر رہے ہیں۔ چودھری سرور کچھ کر سکے یا نہ کر سکے۔ آلو چھولے بیچنے کا ان کا بیان ان کے ماضی کی ساری خدمات اور تعاون پر پانی پھیر گیا ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کا رکن رہنے والا اس زبان میں بات کرے گا اوراپنی جماعت کے کسی سیاسی حریف کو اور وہ بھی ایسا حریف جسے سپریم کورٹ سیاست سے آئوٹ کر چکی ہو محض مفروضے کی بنیاد پر اس طرح ری ایکشن ظاہر کرے گا۔ برطانوی پارلیمان کے معیار سیاست کو تو سمجھا گیا ہے یا چودھری صاحب کے اپنے دھرتی سے جڑے رہنے کو بطور حوالہ سامنے لے آیا ہے۔ کس کس سیاست دان کی کس کس بات کارونا رویا جائے آوے کا آوا ہی بگڑا ہے خدا خیر کرے!

ای پیپر دی نیشن