عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیاں ہے زندگی

زندگی کی کوئی حد نہیں ہے جہاں آپ چلے جانا چاہتے ہیں، آپ جاسکتے ہیں۔ بلند سے بلند منزل کو آپ چھو سکتے ہیں، یہ سب کچھ آپکے دل کے ہاتھوںمیں ہوتا ہے۔ دنیا کا مہنگا ترین سفر کونسا ہے، وہ ہے ہسپتال کا بستر۔ اگر آپ کے پاس دولت ہے تو آپ ڈرائیور رکھ سکتے ہیں جو آپ کی گاڑی چلائے گا مگر آ کے پیسوں کے عوض کوئی آپ کی بیماری کو اپنے سر نہیں لے سکتا ہے۔ ایک ایسی بیماری جو عنقریب آپ کو ختم کر دیگی۔ مادی چیزوںکو آپ کھودیں تو وہ دوبارہ بھی مل سکتی ہیں مگرکھوئی ہوئی وہ چیز جو آپ کو دوبارہ نہیں مل سکتی ہے وہ ہے زندگی لہٰذا ہم آج زندگی کے جس موڑ پر کھڑے ہیں، اس کا پردہ بالآخر ایک دن گرجائے گا لہٰذا اپنے خاندان کو وقت دیں۔ شریک حیات سے محبت کریں، ہر کسی کا خیال رکھیں۔ دوستوں اور ہمسایوں پر توجہ دیں۔ اتنا ڈرامیٹک ہونے پر معذوت خواہ ہوں۔ حقیقت ہے کہ موت ہماری تقدیر بنے اور موت بھی زندگی کا سب سے بڑا شاہکار ہے جو پرانے لوگوں کو نئے لوگوں سے بدلتا ہے مگر یہ سچ ہے اور حقیقت ہے لہٰذا اپنی زندگی اپنے حساب سے جیو۔
حال ہی میں 54 سال کی عمر میں نامور اداکار عرفان خان بھی نیورو اینڈو کرائن کینسر کے ساتھ دو سال لڑنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔ موت جب لمحہ بہ لمحہ عرفان خان کا پیچھا کر رہی تھی تو وہ اس کے اندر خیالات کا بھونچال کچھ اس طرح موجزن تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمہاری آنکھ سے اس جھٹکے سے کھلتی ہے جو زندگی تمہیں جگانے کے لئے دیتی ہے۔ تم ہڑبڑا کے اٹھ جاتے ہو۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ انوکھی کہانیوں کا پیچھا کرتے ہوئے میں خود بھی ایک انوکھی بیماری یعنی آنتوں کے کینسر کاشکار ہو جائوں گا۔ ایسی بیماری جس کے مریض پوری دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میں بس دوائوں اور تجربوں کے کھیل کا ایک حصہ بن چکا ہوں۔ یہ میرا کھیل نہیں تھا۔ بھائی میں تو ایک فل سپیڈ والی بلٹ ٹرین میں سوار تھا۔ میرے تو خواب تھے، کچھ کام تھے جو کرنے تھے، کچھ خواہشیں تھیں، کچھ تمنائیں تھیں اور میں بالکل ان کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔ اب کیا ہوتا ہے اچانک پیچھے سے کوئی آکر میرے کندھے کو تھپتھپاتا ہے۔ میں جو مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ ٹکٹ چیکر ہے، تمہارا سٹاپ آنے والا ہے بابو۔ چلو اب نیچے اترو، میں ایک دم پریشان ہو جاتا ہوں۔ نہیں نہیں بھائی میاں ، میری منزل ابھی دور ہے یار مگر وہ ٹکٹ چیکر مجھے سمجھانے والے انداز میں کہتا ہے کہ ’’نہ یہی ہے سٹاپ تو بس یہیں اترو۔‘‘ اس اچانک پن میں پھنس کر مجھے سمجھ آگئی ہے کہ ہم سب کس طرح سمندر کی بے رحم لہروں کے اوپر تیرتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح۔ بے یقینی کی ہر بڑی لہر کے آگے ہم سب اپنے چھوٹے سے وجود کو سنبھالنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ اس مصیبت میں پھنسنے کے بعد میں ہسپتال پہنچا، درد کی شدت بے کراں تھی۔ کوئی ہمدردی، پیار بھرے بول کوئی ہمت بندھانے والے بات کچھ بھی نہیں۔ اس وقت انسان کو پتہ چلتا ہے جیسے پوری کائنات کا صرف ایک ہی روپ ہے، وہ ہے درد کی شدت۔ میرے سامنے لارڈز کا کرکٹ گرائونڈ تھا، میرے ساتھ بہت سارے ایسے بھی مریض تھے جو زندگی اور موت کے درمیان یعنی (کوما) میں لٹکے ہوئے تھے۔ ایک طرف سٹیڈیم اور ایک طرف ہسپتال درمیان میں ایک سڑک، کرکٹ کو گیم آف لائف بھی کہتے ہیں۔ جس طرح بیٹسمین تماشائیوں اور کھلاڑیوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگلی گیند پر کیا ہوگا، اسی طرح ہسپتال میں گیم آف ڈیتھ جاری رہتی ہے اور نہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگلی سانس آئے گی یا نہیں۔ یہ ہسپتال کرکٹ گرائونڈ سے کیوں جڑا ہوا ہے تو اچانک مجھے سمجھ آگئی کہ بس جو چیز یقینی ہے وہ بے یقینی ہے، جو چیز بااعتبار ہے اس میں بے اعتباری بھی ہے۔ مجھے اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ میری زندگی کا جو بھی نتیجہ نکلے، مجھے اس کوماننا پڑے گا چاہے میرے پاس کتنا ہی عرصہ زندگی کا ہے اور سب کچھ ایک طوفانی لہر میں ہے جو مجھے جب چاہے بہا کر لے جائے۔ لوگ میرے لئے دعائیں کرتے ہیں، ان سب کی دعائیں مل کر ایک ہوگئی ہیں۔ ایک بڑی سی طاقت جو میری ریڑھ کی ہڈی سے اندر اتر گئی ہیں، میں جو لکڑی کا ایک ننھا سا ٹکڑا ہوں اسے کیا ضرورت ہے کہ پانی کے بہائو کا رخ بدلنے کی کوشش کرے۔ اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہم سب قدرت کی گود میں بیٹھے ہیں جو ہمیں ہلکے پھلکے جھولے دے رہی ہے نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔ میں تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ آپ دنیا کے قریب ہوتے ہیں مگر ہماری تقدیر کے متعلق رب کریم ہی جانتا ہے۔ عجیب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی۔
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے چاہتا کوئی اور ہے
(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن