جب کرونا کی تباہ کاریاں شروع نہیں ہوئی تھیں۔تو ہم سب بلکہ اس کائنات کا ہر فرد اتنا مصروف تھا کہ بیشتر لوگوں کے پاس اپنی ذات کے لئے بھی وقت نہیں تھا۔ ایک عجیب بھاگ دوڑ جاری تھی۔کسی کے پاس ایک پل ٹھہر کر سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ پھر قدرت نے پوری دنیا کو گھر کی چاردیواری میں مقید کر دیا تو وہ لوگ جن کے پاس عزیزوں،دوستوں حتی کہ ماں باپ کے لئے وقت نہیں تھا وہ مجلسوں کو ترسنے لگے۔ سماجی فاصلے کے اس دور میں تو ایک گھر میں رہتے ہوئے لوگ بھی ایک دوسرے سے کھنچے اور ڈرے رہتے ہیں۔ تو کتاب ایک خوبصورت تحفہ محسوس ہوتی ہے۔ایک کتاب پڑھنے کا موقع ملا جس کے سر ورق پر دلکش کارٹونوں اور قد اور ادبی شخصیات کے پیغامات قاری کو یہ کتاب پڑھنے پر اکساتے ہیں۔ اس کے لکھاری حسین احمد شیرازی ہیں جو اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ ایک انتہائی نفیس انسان،جس کی مسکراہٹ سے لیکر آنکھوں کی جنبش تک مزاح کا رنگ جھلکتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازم ہوئے۔جب تک نوکر رہے،کہانیاں اکٹھی کرتے رہے۔ڈائریکٹر جنرل فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے ریٹائر ہوئے تو آزادی کا اعلان بابو نگر کی صورت کیا۔جس میں مشاہدہ اور تجربہ دونوں شامل تھے۔ اس کے بعد وکالت سے دل بہلا رہے ہیں۔ ان کا شعبہ کسٹم ایکسائز اور سیلزٹیکس سے متعلق ہے۔اس لئے اپنے علم وفضل سے لوگوں کو مستفید کرتے رہتے ہیں۔ان حوالے سے ان کی آنکھ کتابیں سرکاری ایوارڈ کے ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو،اسلام آباد اور مقتدرہ قومی زبان شائع کر چکے ہیں۔کالم نگار بھی ہیں۔لیکن ان کا اصل تعارف انکی مزاح پر لکھی جاندار تحریریں ہیں۔ان کی اولین کتاب بابو نگر نے مزاح کی دنیا میں ایک ہلچل مچادی تھی اس لئے کہ سے پہلے جو مزاح لکھا جا رہا تھا وہ مختلف رنگ کا تھا۔ بڑے بڑے مزاح نگار موجود تھے اور ان کے قلم سے نکلا ایک ایک لفظ چینی میں لپٹے تیر کی مانند تھا۔لیکن حسین شیرازی نے مزاح کے نگر میں ایک نئی رہگزر اور سمت دریافت کی۔انھوں نے سرکاری ملازموں کی معصومانہ حرکات، غلطیوں اور روئیے اور دفتروں میں پیش آنے والے واقعات کو نرالے رنگ میں پیش کیا۔اس لئے اس کا نام بھی بابو نگر رکھا گیا۔یہ ایک نیا تجربہ تھا جسے لوگوں نے بے حد پسند کیا۔یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب پوری دنیا میں حسین شیرازی کے نام اور کام کو متعارف کراتی رہی۔ اس کتاب کے کئی سالوں بعد ان کی ایک اور منفرد اور خوبصورت لکھت دعوت شیراز سامنے آئی اور پھر پڑھنے والوں کو چونکا گئی۔ آتے ہی لوگوں سے بے پناہ پذیرائی حاصل کرگئی۔حسین شیرازی صاحب،بڑے زیرک لکھاری ہیں۔وہ طنزاور مزاح صرف ہنسانے کے لئے نہیں لکھتے بلکہ ہر پیراگراف بلکہ لفظ کے پیچھے ایک پیغام اور اصلاح موجود ہے۔وہ اپنے معاشرے کی تعلیم و تربیت کے لئے جداگانہ طریقہ اپناتے ہیں۔ہلکے پھلکے انداز اور باتوں باتوں میں وہ بات کہہ جاتے ہیں کو ان کی تحریر کا مقصد ہوتا ہے۔ وہ تقریر اور نصحیت نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر کا حسن اور شگفتگی چکاچوند کرنے والی ہے۔اپنی ذات کو طنز کے دائرے سے باہر نہیں رکھتے بلکہ اپنا مذاق اڑانا بھی خوب جانتے ہیں۔لیکن کارٹون میں ڈھل کر بھی ان کی تہذیب یافتہ شخصیت کا وقار برقرار رہتا ہے۔ کتاب پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان،ڈاکٹر عبدالرؤف پاریکھ،عطااللہ قاسمی اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے تاثرات درج ہیں جنہوں نے ان کی اس کاوش کو بے انتہا پسند کیا ہے۔کارٹون کی دنیا کے نامور کارٹونسٹ جاوید اقبال کی تصویری کہانیاں بھی بہت شاندار ہیں۔ میں نے جس طرح پہلے عرض کیا کہ بابو نگر میں زیادہ تر سرکاری دفاتر اور سرکاری لوگوں کا حال احوال تھا جبکہ۔دعوت شیراز،میں زندگی کے دیگر شعبوں کے بارے میں لکھا گیا ہے اور اس میں طنز کا تاثر کچھ زیادہ اور گہرا ہے۔اگرچہ اس میں بھی افسریات، دفتریات، واہیات شامل ہیں کیونکہ دفتری ماحول ایک سرکاری افسر کے ذہن سے کبھی نہیں نکل سکتا جس کا وہ ایک عرصہ شکار رہا ہویا جس میں شامل رہا ہو۔لیکن لیکن اس کے علاوہ باقی جو معاملات ہیں، جو محاورے ہیں، بچپن کے ساون کی دلکش یادیں ہیں وہ لاجواب ہیں۔حسین شیرازی کی یاداشت کمال کی ہے ان کی نظر میں بچپن کے ساون میں کاغذ کی کشتی کا احوال پوری طرح تروتازہ ہے نظر ان کی آنکھوں کے سامنے پھرتے رہتے ہیں اور وہ انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا جو اپنے بچپن کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔اگرچہ حسین شیرازی صاحب شاعر نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنے مضامین میں جابجا خوبصورت اشعار استعمال کئے ہیں اور وہ استاد شاعروں کے اشعار ہیں۔ اللہ کرے کہ حسین شیرازی کے قلم کے گلشن میں مزاح کے تازہ پھول اگتے رہیں اور معاشرہ مہکتا رہے۔
دعوت شیراز کا خواب
May 08, 2020