ہر سال 8 مئی تھیلیسیمیا کا بین الاقوامی عالمی دِن تھیلیسیمیا کے مریضوں اور ان کے والدین کے ساتھ اِن مریضوں کے اعزاز میں منایا جاتا ہے ۔ جو بیماری کے بوجھ کے باوجود اپنی زندگی سے نااُمید نہیں ہوتے۔ محقق اور محسن اس بیماری میں مبتلا مریضوں کا معیار زندگی بہتر بنانے اور مرض کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں۔انہی محسنو ں میں ایک ایسا نام جو زبان زدِ عام ہے ۔ وہ منو بھائی اور سُندس فائونڈیشن کا ہے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان تھیلیسیمیا میجر سے متاثرہ بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ہمارے مُلک میں نیشنل ڈیٹا بیس نہ ہونے کی وجہ سے تھیلیسیمیا سے متاثرہ مریضوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔ جبکہ ہر سال تقریباََ 6000 بچے تھیلیسیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ موروثی مرض سے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے اِس مرض کے پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی دونو ں کا تھیلیسیمیا کیرئیر ٹیسٹ ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو موزی موروثی مرض سے محفوظ کیا جاسکے بلکہ قومی شناختی کارڈ پر تھیلیسیمیا ٹیسٹ کا اندراج ہو تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ بیماری منتقل نہ ہوسکے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا پر قانون سازی او ر اِ س پر عمل در آمد کی اشد ضرورت ہے۔کیوں کے ایران، مالدیپ ، سائپرس وغیرہ میں مناسب قانون سازی کے ذریعے ہی تھیلیسیمیا کا تدارک ممکن ہُوا ہے۔یہاں پر یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ تھیلیسیمیا کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔ اس بیماری کے ماہانہ علاج پر ادویات اور انتقال خون کی مد میں 25,000 سے 30,000 روپے خرچ آتا ہے۔ جو کہ ایک غریب آدمی کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہ خرچ مختلف فلاحی ادارے برداشت کرتے ہیں ۔ یہ صرف اور صرف ارباب اختیار اور دیگر مخیر حضرات کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ سُندس فائوندیشن جیسے ادارے نہ صرف اِن تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں لئے صحت مند انتقال خون کی فراہمی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں بلکہ سُندس فائونڈیشن نے اس بیماری سے خاتمے کے لئے جدید مشینوں سے آراستہ لیبارٹری کا قیام اور ایک منصوبہ SUNMAC کو متعارف کروایا ہے جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر مریضوں کے لواحقین اور عوام الناس کو تھیلیسیمیا کیرئیر کے لئے مفت جانچہ جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں سے اس موذی بیماری کا خاتمہ کیا جاسکے اور صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔تین دہائیوں سے پہلے اِس مرض میں مبتلا بچوں کی اوسط عُمر 08 سے 12 سال ہُوا کرتی تھی لیکن سُندس فائونڈیشن اور اِس جیسے دیگر اداروں کی بدولت بتدریج جدید ٹیکنالوجی ، موثر ادویات ، صحت مند خون اور معیاری علاج معالجہ کی بدولت اِ ن مریض بچوں کی عُمریں 35 سے 40 سال ہوچکی ہیں۔ اِن میں اکثر مریض بچے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے معاشرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں اور معاشرے پر بوجھ نہیں ہیںتعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہیں اور کئی اپنے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔صدرپا کستان جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے کرونا کی وبا کے پیش نظر پیدا ہو نے والی صورت حال میں سُندس فاؤنڈیشن اسلام آباد سینٹر کا دورہ کیا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ان مشکل حالات کے باوجود سُندس فاؤنڈیشن دلجوئی سے بلا تعطل تھیلے سیمیا کے مریضو ں کی مدد کرنے میں کوشاں ہے ۔انہوں نے سُندس فاؤنڈیشن کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ مخیر حضرات کو سُندس فاؤنڈیشن کا بھر پور ساتھ دینا چاہیے تاکہ اس ادارے سے عوام الناس مستفید ہوتی رہے۔بوجہ لاک ڈاؤن سُندس فاؤنڈیشن کو خون کے عطیات کی کمی کا سامنا تھا مشکل کی اس گھڑی دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس قادری کی ایک آواز پر دعوت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں نے سُندس فاؤنڈیشن کو خون کے عطیات دیے ۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر شعیب دستگیر کے حکم پر بھی پولیس کے جوانوں اور افسران نے بھی خون کے عطیات کے ذریعے سُندس فاؤنڈیشن کی بھرپور مددکی ۔جیسا کہ سُندس فاؤنڈیشن پہلے سے ہی جدید لیبارٹری تکنیک APHRESISکے ذریعے ہزاروں ہیمو فیلیا کے مریضوں کے لیے بلڈ میں سے پلازمہ الگ کر کے ان کے علاج میں مدد کر رہا ہے ۔ موجودہ Covid-19کی عالمی وبا سے متاثرہ مریضوں کی اس تکنیک (APHRESIS) کے ذریعے PASSIVE IMMUNIZATIONکے طریقہ علاج پر عمل کرکے سُندس فاؤنڈیشن اس تنا ظر میں بھی مریضوں کی مد دکر سکتا ہے ۔