رحمتوں کا سائباں ،مطالعہ ء اقبالیات اور کورونا کے منظر نامے پر علی ارمان کی غزل

May 08, 2020

حیدر قریشی

حیدر قریشی۔جرمنی

اس بار پھر اپنے پہلے سے لکھے ہوئے کا مطالعہ کیا اور اس میں سے دو تبصرے قارئینِ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔سوشل میڈیا پر کورونا کے منظر نامے کے حوالے سےعلی ارمان کی ایک غزل گردش کر رہی ہے۔یہ غزل بھی آخر میں پیش ہے۔
سعید رحمانی کا نعتیہ مجموعہ"رحمتوں کا سائباں "

آقائے دو جہاں حضرت محمدمصطفی ?کی بارگاہِ اقدس میں نذرانہ? عقیدت پیش کرنا، نعت کہنے کی توفیق پانا،بڑے نصیب کی بات ہے۔سعید رحمانی ایسے ہی خوش نصیب شاعر ہیں جو ایک عرصہ سے بارگاہِ رسالت(?) میں نعتوں کا نذرانہ پیش کرتے آرہے ہیں۔نعت کہتے ہوئے کہیں یہ احتیاط اظہار میں روک بن جاتی ہے کہ محبت کے بیان میں کوئی بے ادبی نہ ہوجائے تو کہیں محبت و عقیدت کے والہانہ پن میں سچ مچ بے ادبی سرزد ہو جاتی ہے۔یوں نعت کہنا تخلیقی لحاظ سے پ±ل صراط پر چلنے جیسا عمل ہوجاتا ہے۔سعید رحمانی کی جتنی نعتیں میں نے پڑھی ہیں ان میں وہ عمومی طور پر بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ان کے ہاں محبت، عقیدت اور احتیاط کا ایک متوازن امتزاج ملتا ہے۔
”رحمتوں کا سائباں“ میں عید کے حوالے سے،شہادتِ امام حسین ? کے حوالے سے نظمیں اور ایک منقبت بھی شامل ہے۔اس مجموعے کا انداز غزل جیسا ہے۔یوں سعید رحمانی پر غزل کے گہرے اثرات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے،تاہم غزل کے جملہ مضامین میں سے صرف محبت کے اظہار اور والہانہ پن سےہی انہوں نے اپنی نعتوں کو سجایا ہے۔یوں وہ پیغمبرِ خداکے محب بن کر سامنے آتے ہیں۔غزل کے روایتی محبوب نے تو اردو شاعر کو خاصا خوار کیا ہے۔لیکن سعید رحمانی کے محبوب تو محبوبِ خدا ہیں،سو غزل کا انداز ہونے کے باوجود ان کی نعتیں شکوہ شکایت سے نہیں،عشق اور اس کی سرشاری سے لبریز ہیں۔غزل کا گریہ ان کی نعت میں دعا کا سائبان بن جاتا ہے۔یوں ہیئت کے لحاظ سے غزل جیسی ہونے کے باوجود ان کی نعتیں بحیثیت صنف اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔
میری دعا ہے کہ سعید رحمانی کا یہ نعتیہ مجموعہ ان کی دنیا و آخرت سنوارنے کے ساتھ ان کی ادبی عزت و توقیر میں اضافہ کا موجب بنے۔(آمین)
ڈاکٹر وسیم انجم کی کتاب ..."مطالعہ اقبالیات"
زیرِ نظر کتاب”مطالعہ? اقبالیات“وسیم انجم کے گہرے مطالعہ کاثبوت ہے۔انہوں نے اقبال کو براہِ راست بھی سمجھنے کی کاوش کی ہے اور دوسرے محققین اور ناقدین کے توسط سے بھی اقبال کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔اس مطالعہ میں اقبال کے فلسفیانہ اور شاعرانہ دونوں طرح کے نظریات کو بڑی حد تک مربوط کرکے پیش کیا گیا ہے۔ان کے تحقیقی مطالعہ کے دائرہ? کار کا اندازہ کرنے کے لئے کتاب کے آٹھ ابواب کے عناوین سے کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
۱۔مابعد الطبیعیات،
۲۔اسلامی اور انسانی خلافت،
۳۔اقبال? کی تخلیقات اور نظامِ اشتراکیت
۴۔اقبال? کا خطبہ? پنجم اور ثقافتِ اسلامی کی اساس
۵۔علامہ اقبال? کے مجموعہ? خطوط
۶۔علامہ اقبال? اور تصورِ پاکستان
۷۔ اقبال? کی اردو غزلیں اور غزل نما قطعات کا اسلوب و معنی کے اعتبار سے فارسی شاعری کی تخلیقات سے مماثلت
۸۔پیامِ مشرق
ان عناوین کے کئی ذیلی عناوین الگ سے ہیں جن کے نتیجہ میں متعلقہ موضوعات کے بارے میں اقبالی فکر کافی حد تک سامنے آجاتی ہے۔تاہم یہ مطالعہ کسی کتاب کے خلاصہ کی طرح اقبال کے مزید مطالعہ سے بے نیاز نہیں کرتا بلکہ غور و فکر کے نئے در وا کرکے پیش کردہ موضوعات اور مباحث میں مزید مطالعہ کی طرف راغب کرتا ہے۔وسیم انجم کی بنیادی شناخت اقبالیات کے حوالے سے روز بروز گہری ہو رہی ہے۔میں اس میدان میں ان کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا گو ہوں!
کورونا کے منظر نامے پر علی ارمان کی غزل
کمرے میں تیس روز سے دیوانہ بند ہے
تم رو رہے ہو شہر کو ، ویرانہ بند ہے
مکّے میں ہے طوافِ حرم بھی ر±کا ہوا
اور میکدے میں گردشِ پیمانہ بند ہے
اک شمع جل رہی ہے اکیلی مزار پر
پروانگی حرام ہے پروانہ بند ہے
مشرک بھی دل شکستہ مسلماں بھی دلفگار
مسجد کی تعزیت میں صنم خانہ بند ہے
ممنوع ہے مکالمہ ساحل کی ریت سے
اپنے بدن کو دھوپ میں نہلانا بند ہے
رندوں کو روندنے کا مزہ بھی نہیں رہا
واعظ کو رنج یہ ہے کہ میخانہ بند ہے
ماتم یہ ہے کہ جرم ہے ماتم کی بھیڑ بھی
روتے ہیں سب اکیلے عزا خانہ بند ہے
ہے حجرہ فقیرمیں بھی صرف سائیں سائیں
رنگینی ِ محافل ِ شاہانہ بند ہے
پہلے بھی قیدِ مرگ میں تھی زندگی یہاں
پر اب کے تو بطرز ِجداگانہ بند ہے
و±ہ بام پر اکیلا ہے سنسان ہے گلی
چاروں طرف سے کوچہ جانانہ بند ہے
تنہائی میں بتوں کو خدا یاد ا? گیا
اور کس طرح نہ ا?ئے کہ بتخانہ بند ہے
ارمان پھر رہی ہے کھ±لی موت شہر میں
اور زندگی کا نعرہ ِمستانہ بند ہے

مزیدخبریں