کرونا سے جہاں کاروبار تباہ ہوئے وہیں کچھ نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔آج دنیا میں آن لائن بزنس کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔اگر کسی کی منزل کمائی، روزگار اور دولتمند بننا ہے تو وہ ان راہوں کا راہی بن کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ویسے تو مارکیٹ میں بہت کچھ بکتا ہے،بیچنے کا قرینہ ہونا چاہیے۔جو کچھ آپ دکان پر بیٹھ کر،کارخانہ فیکٹری بنا کر بیچ رہے ہیں‘ وہی سب کچھ آن لائن بھی ہوسکتا ہے۔یہ آپ کی ہمت، مہارت اور طریقۂ کار کو سمجھنے پر منحصر ہے۔آپ آن لائن کاروبار کرکے دس گنا زیادہ کما سکتے ہیں۔مثلاً دکان پرآپ کی سیل دس ہزار ہے‘اسے آپ ایک لاکھ تک لے جاسکتے ہیں۔یہ ہوائی باتیں نہیں عملی طور پر ایسا ہوتا ہے۔آئی ٹی نے کمال کردیا ہے۔کچھ چیزوں کا میں خود گواہ ہوں۔کہتے ہیں کتابیں پڑھنے کا رواج زوال پذیر ہے۔کتابیں پڑھنے والے نہ ہونگے تو کیا چھپیں گی اور کیا بکیں گی۔میرے دوست معاذ ہاشمی پبلشر ہیں۔ دوسال قبل وہ بھی شکوہ کناں تھے۔گزارہ بہر حال ہورہا تھا۔انکی ملاقات ای کامرس ماہرین سے کرادی۔ ان کااب آن لائن کتابیں فروخت کرنے کا بزنس کروڑوں میں ہے۔سوشل میڈیا پر ایڈور ٹائز کرتے ہیں۔ روزانہ تین چار سو کتابیں ڈاک اور کوریئر کے ذریعے شہر شہر بھیجی جاتی ہیں۔اگلی بات بھی ذرا دل تھام کر سینئے: وہ اَیڈ پر ماہانہ چالیس لاکھ لگاتے ہیں۔ماہانہ انکم دس سے بارہ لاکھ ہے۔انکم ٹیکس کے ساتھ اللہ کی راہ میں بھی دیتے ہیں۔کاروبار کو توسیع دے رہے ہیں۔ ان کیلئے ڈیمانڈ پوری کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔آپ کچھ بھی بلکہ سب کچھ آن لائن بیچ اور خرید سکتے ہیں۔کرونا میں اسکی ضرورت بڑھ گئی ہے۔میرا ایک واقف کلاتھ ہائوس اوردوسرا بوتیک والا آن لائن کاروبار بھی کررہے ہیں۔ دونوں کو دن میں دوتین آرڈر ملتے ہیں۔یہی کسی ایکسپرٹ سے رہنمائی لیںتو ایک دن میں سو سے زیادہ ان کو آرڈر مل سکتے ہیں۔آن لائن مٹی تک بک سکتی ہے۔ آپ نے ضرورت مند اور خریدار کو تلاش کرنا ہے۔ یہ کام ای کامرس والے کرتے ہیں۔انکے پاس گُر ہے جس کا کمایا وہ کھاتے ہیں۔آج کوریئر کی بھی بڑی اہمیت ہوگئی ہے۔ یہ بھی ایک کاروبار ہے جس میں آپ اعتماد پیدا کرکے بہت آگے جاسکتے ہیں۔ہمارے ڈاکیے عموماً جبکہ کئی کوریئر کمپنیوں والے کبھی کبھی ہڈ حرامی کر جاتے ہیں۔ یہ ایمانداری سے کام کریں تو ایک بھی آرڈر واپس نہ آئے۔آپ اگر کچھ نہیں کرتے تو آن لائن گلاس،کپ کلاک، ماسک سینیٹائزرز‘ گھڑیاں، کھلونے، کھیلوں کا سامان، سلے اَن سلے کپڑے،موبائل فون اور لیپ ٹاپ کور،چارجر،ہینڈ فری،جرابیں، دستانے، جیولری، میک اپ کا سامان فروخت کر سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں گے تو سیکڑوں ہزاروں چیزیں مل جائیں گی۔ کچھ لوگوں کو مٹی کے برتن درکار ہیں، کچھ کوکھیس اور چادریں چاہئیں۔ رحمانیوں اور انصاریوں کو جگائیں ۔آج آپ کو کچھ بھی سیل کرنے کیلئے مقامی خریداروں یا مارکیٹ کی ضرورت اور تلاش ہے تو کل عالمی مارکیٹ کارُخ کرنا ہوگا۔کئی لوگوں کو آج بھی ایسی مارکیٹوں کی ضرورت تھی جو ایمیزون نے پوری کردی ہے۔ خریدو فرخت کیلئے دنیا کی سب سے مشہور کمپنی ایمیزون کی جانب سے پاکستان کو سیلرلسٹ یعنی فروخت کنندگان کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کا پاکستان کی معیشت کی مضبوطی میں اہم کردار ہوگا۔ پاکستانی تاجر اور کاروباری حضرات کیلئے ایک بڑی عالمی مارکیٹ کھلنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔اب پاکستانی مصنوعات دنیا کی سب سے مشہور ای کامرس ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گی۔ جیف بیزوس کی جانب سے 1994 ء میں قائم کیے گئے ایمیزون کی ای کامرس خدمات سے متعدد پاکستانی پہلے بھی منسلک تھے تاہم وہ اپنے پاکستانی ایڈریس سے خود کو بطور سیلر رجسٹر نہیں کر سکتے تھے اور اس کیلئے امریکہ یا کسی دوسرے ملک میں مقیم فرد کے ذریعے بالواسطہ طور پر مصنوعات فروخت کرتے تھے۔ ٹیکنالوجی کی جدت کے ساتھ ہی دنیا بھر میں زیادہ تر تجارت آن لائن ہو گئی ہے اور اب کورونا وبا کے باعث اس رجحان میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اب ایمیزون کے آنے سے خواتین، نئے بزنس مین اور نوجوان نسل تھوڑی تحقیق کریں، آن لائن مصنوعات دیکھ کر قیمتوں کا موازنہ کریں پھر اسی حساب سے اپنی مصنوعات کو ایمزون پر لانچ کرکے بیچیں۔ پاکستان میں گوگل سمیت متعدد کمپنیوں سے منسلک رہنے والے آئی ٹی ماہربدرخوشنود ابھی حال ہی میں تشکیل پانے والی نیشنل ای کامرس کونسل کے ممبر بھی ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے حال ہی میں ای کامرس کے فروغ کیلئے پالیسی بنانے کے بعد متعدد اقدامات کیے ہیں ۔ ایمیزون سے بات چیت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس سلسلے میں پہلے ایمیزون نے 30 سے 40 پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ ایک سال قبل ٹرائیل شروع کیا جس کی کامیابی کے بعد ایمیزون نے پاکستان کو سیلر لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب پاکستانی کمپنیاں اپنی مصنوعات مثلاً تولیے، جوتے، لیدر جیکٹ وغیرہ ایمیزون کے ساتھ رجسٹر ہو کر دنیا بھر میں بیچ سکیں گے۔بہت سی کریمیں‘ فیس واش‘ بال لمبے کرنیوالے آئل‘ جن میں ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کی اشیاء بھی ہیں‘ آن لائن منگوائے جا سکتے ہیں۔
ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ایک چیز پاکستان سے براہ راست خریدار تک جائیگی بلکہ پاکستان سے اکٹھا سامان ایمیزون کے ویئرہاؤس میں جائیگا جہاں سے خریداروں کو ایمیزون براہ راست ڈیلیور کریگا۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں ایمیزون کے 175 ویئر ہاؤسز ہیں۔ پاکستانی جو اپنی مصنوعات فروخت کرنا چاہتے ہیں وہ معمول کیمطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ہوں گے۔ اسکے بعد وہ ایمیزون پر رجسٹریشن کرینگے ۔ایمیزون سے سرِدست بڑے کاروباری لوگ استفادہ کرسکیں گے۔ اس حوالے سے پاکستانی بزنس مینوں کی تربیت کی جائیگی۔ اس سلسلے میں وزارت تجارت اور ایمیزون کی بات چیت چل رہی ہے ۔ پہلے تربیت کرنیوالوں یعنی ماسٹر ٹرینر کی اپنی تربیت کی جائے۔بہر حال ایک سلسلے کا آغاز ہوگیا ہے جس سے بہترین مواقع دستیاب ہونگے۔
چھوٹے کاروباری افراد کیلئے پاکستانی مصنوعات اپنے طور پر پوری دنیا میں سیل کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ دہلی میں مقیم رضوان عابد قریشی سے بات ہوئی۔وہ رائٹر ہیں اور شہد کا کاروبار کرتے ہیں۔وہ بتا رہے تھے کہ شہد ٹیسٹ کرنے کی لیبارٹریاں ہیں۔وہ مختلف علاقوں سے شہد منگواتے ہیں۔جن کے اصل ہونے میں شبہ نہیں ہوتا۔امریکہ سیمپل بھجوائے گئے تو تین کنٹینروں کا آرڈر آگیا۔پنڈ والے دیسی گھی، سرسوں کا تیل،گڑ شکر، کھویا، مٹھائیاں، چاول، چنے آن لائن فروخت کر سکتے ہیں۔ کچھ سوچیں تو سہی، تھوڑی ہمت کریں ۔ادھر اُدھر سے معلومات لیں، رسک بھی لینا پڑتا ہے…؎
اُٹھ باندھ کمر کیوںڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
ایمیزون کے ذریعے کاروبار کا پھیلائو
May 08, 2021