’’ حضرتؔ جعفر طیّارؓ،سرسید احمد ؔخانؒ بحیثیت ؔسُفرائ!‘‘ 

معزز قارئین ! 22 رمضان اُلمبارک 6 مئی کووزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نیازی نے الیکٹرانک میڈیا پر دُنیا بھر کے سُفراء سے خطاب کرتے ہُوئے سمندر پار پاکستانیوں کی تو بہت تحسین و آفریںکی لیکن دُنیا بھر کے سُفراء (Ambassadors) کی کارکردگی ناقابل قبول قرار دیتے ہُوئے کہا کہ ’’ سمندر پار پاکستانی ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں لیکن پاکستانی شہریوں سے دُنیا بھر کے سُفراء کا روّیہ ، "Colonial"( نو آبادیاتی ، خصوصاً ، برطانوی ، نو آبادیاتی دَور والا روّیہ ہے) جسے ہم مسترد کرتے ہیں ! ‘‘ ۔ 
جنابِ وزیراعظم نے بڑی بے تکلفی سے یہ بھی کہا کہ ’’ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کی وجہ سے پاکستان ’’ دیوالیہ پن ‘‘ (Bankruptcy) سے محفوظ رہا لیکن ہم سمندر پار اپنے پاکستانیوں کو لا وارث نہیں چھوڑیں گے!‘‘ ۔
 سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے سے پریشان کن اطلاعات مل رہی تھیں۔ "Feedback" ( نتائج کے مطابق ردِ عمل ) اچھا نہیں تھا۔ بیرونی ملکوں میں جس طرح پاکستانی سفارتخانے اپنی جس طرح کی کارکردگی سے چل رہے ہیں وہ مزید نہیں چل سکتے؟‘‘۔ 
’’ انگریزوں کے نافذ قوانین ! ‘ ‘ 
ستمبر1981ء سے میرے دوست گلاسگو کے ’’ بابائے امن ‘‘ ملک غلام ربانی اپریل 2015ء کے اوائل میں مجھے لاہور میں "Business Community" کی ایک تقریب میں لے گئے جس میں چیئرمین ’’ستارہ گروپ آف انڈسٹریز‘‘:
 (Federation of Pakistan Chambers of Commerce & Industry)
میاں محمد ادریس نے حاضرین سے کہا کہ ’’ پاکستان میں ابھی تک متحدہ ہندوستان اور قیام پاکستان سے پہلے کا "Colonial" ( انگریزوں کا جاری کردہ نو آبادیاتی نظام کے قوانین ) نافذ ہیں لیکن ہماری کسی بھی پارلیمنٹ نے سفارتکاری ، تجارت و صنعت سمیت سبھی شعبوں میں انگریزی دَور کے قوانین کو نئے حالات اور ضروریات کے مطابق "Update" کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی ! ‘‘ ۔
’’گورے اور کالے کی قید !‘‘ 
اِس پر مَیں نے میاں محمد ادریس سمیت حاضرین کو اُردو اور فارسی کے نامور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا ایک واقعہ سُنایا کہ ’’ مرزا غالب جب ایک مقدمہ سے بری ہُوئے تو اُنہوں نے اپنے ایک دوست ’’ میاں کالے خان ‘‘ کے مکان میں رہائش اختیار کی ، پھر مرزا صاحب کے کئی دوست اُن سے ملنے گئے اور اُن کی رہائی پر اُنہیں مبارکباد دِی تومرزا غالب ؔ نے کہا کہ ’’کون بھڑوا قید سے چُھوٹا ہے ، مَیں پہلے گورےؔ (انگریز) کی قید میں تھا اور اب میاں کالے ؔ خان کی قید میں ہُوں !‘‘۔
معزز قارئین ! مَیں نے کہا کہ ’ ’ صورت یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے "Diplomacy" (سفارتکاری )"Bureaucracy" (افسر شاہی) کو طاقتور بنایا اور "Aristocracy" (معاشرے کا طبقۂ اشرافیہ) کو بھی، قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک جمہور ؔ(عوام/ The People) اِن سبھی بالائی طبقوں کی قید میں ہیں ۔
 مصّور ِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے بھی تو ’’انگریزی جمہوریت‘‘ (Democracy) کے بارے میں کہا تھا کہ … 
’’ جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں ! 
بندوں کو گنا کرتے ہیں ،تولا نہیں کرتے !
…O…
پاکستان دولخت ہُوا توپاکستان کے سِویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے ’’بچے کھچے ‘‘ ( مغربی پاکستان ) کو ’’نیا پاکستان ‘‘ قرار دِیا تھا۔
 وزیراعظم عمران خان کا بھی یہی دعویٰ ہے اور وہ ریاست پاکستان کو ’’ریاست مدینہ جدید ‘‘ بنانا چاہتے ہیں ۔ گذشتہ روزموصوف 3 روزہ دورہ پر سعودی عرب تشریف لے جا چکے ہیں ۔ اللہ کرے اُن کا دورہ کامیاب ہو؟
’’ سفیر حضرت جعفر طیّار ؓ ! ‘‘ 
معزز قارئین ! مَیں آپ کی خدمت میں دو بہت ہی اہم مسلمان سفیروں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہُوں ۔ حضور پُر نُور ؐ کے اعلانِ نبوت کے بعد جب مکّہ میں مسلمانوں پر کُفارِ مکہ کے ظلم و ستم برداشت سے گزر گئے تو آپ ؐ نے 5 ہجری ماہ رجب میں ’’ باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے بھائی حضرت جعفر طیّارؓ ابن ابی طالب ؓ کی قیادت میں80 افراد (خواتین و حضرات) کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دِی تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی ؔنے اُنہیں پناہ دے دِی تھی لیکن کُفّار ِ مکّہ کا ایک وفد بھی اُن کے پیچھے حبشہ پہنچا اور اُس نے بادشاہ سے 80 افراد کی واپسی کا مطالبہ کِیا۔ بادشاہ نے مہاجرین کے قائد حضرت جعفر طیّار کو طلب کِیا تو آپؓ نے قرآنِ پاک میں سورہ مریم ؓکی ابتدائی آیات سُنائیں تو بادشاہ نجاشی اور اُس کے دربار میں موجود پادری رو پڑے۔ نجاشی نے کہا کہ ’’ یہ کلام اور کلامِ موسیٰ ؑو عیسیٰ ؑدونوں ایک ہی ‘‘چشمِ نُور‘‘ سے نکلے ہیں! ‘‘۔ 
بادشاہ نجاشی نے قریش کے دونوں سفیروں ’’ عمر بن العاص اور عمّارہ بن ولید ‘‘ سے کہا کہ ’’ مَیں اِن مہاجرین کو واپس نہیں کرسکتا۔ تُم واپس چلے جائو!‘‘ ۔ پھر بادشاہ نے مسلمانوں سے کہا کہ ’’ تم میری زمین پر امن سے رہو !‘‘۔
پھر تین بار کہا کہ ’’جو کوئی تمہیں گالی دے گا اُس پر تاوان لگے گا!‘‘۔ دوسرے دِن قریش کے سفیروں نے پھر بادشاہ سے کہا کہ ’’ یہ مسلمان آپ (نجاشی) اور عیسائی مذہب کے خلاف ہیں ، آپ اِن سے دوبارہ سورہ مریم کی آیات سُنیں ‘‘۔
 نجاشی نے دوبارہ آیات سُنیں اورکہا کہ’’ مَیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی نبوت کی گواہی دیتا ہُوں، جو کچھ تُم لوگوں (مسلمانوں )نے کہا حضرت عیسیٰ ؑ اِس تنکے کے برابر بھی اُس سے زیادہ نہیں ہیں !‘‘۔ 
سر سیّد احمد خان ؒ
17 مارچ 2019ء کو متحدہ ہندوستان میں دو قومی نظریۂ کے علمبردار اور علی گڑھ کالج / یونیورسٹی کے بانی سرسیّد احمد خانؒ کا 121 واں یوم وِصال تھا ۔ جنہوں نے ہندوستان کے انگریز حکمرانوں سے ربط و ضبط بڑھا کر اور اپنے علم و فضل سے حضرت جعفر طیارؓ کا سا انداز اپنا کر اُنہیں باور کرایا کہ ’’ہم مسلمان تو حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کا سچا نبی مانتے ہیں ۔ ہندو قوم نہیں مانتی ‘‘۔ 
معزز قارئین ! سرسیّد احمد خان ؒ کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ ’’ آپ ؒنے حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور اُنکے مشن کے خلاف "Sir William Moore" کی کتاب کے جواب میں ’’ خُطباتِ احمدیہ‘‘ لکھ کر غیر مسلموں کی زبان بند کردِی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ ’’ کیا موجودہ دَور میں پاکستان کو حضرت جعفر طیّار ؓ اور سر سیّد احمد خانؒ کے سے سُفراء نصیب ہوسکتے ہیں ؟ ‘‘ ۔ 

ای پیپر دی نیشن