گزشتہ دنوں کراچی سے اوپر تلے تین لڑکیوں کے اغوا کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ دعا زہرا ،نمرہ کاظمی اور دینار نامی یہ لڑکیاں اپنے گھروں سے غائب ہو گئیں جس کے بعد ان کے ورثا نے متعلقہ تھانوں میں اغوا کے مقدمات درج کرادیئے ۔یہ قانونی کاروائی کیلئے ضروری تھا ورنہ بعد ازاں ان تینوں کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ گئی ہیں۔ بلکہ ان میں سے دو نے تو ویڈیوز کے ذریعے اپنے نکاح نامے بھی شیئر کر دیئے۔
عورتوں یا لڑکیوں کے اغوا یا گھر سے فرار کے واقعات تو پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن ان تینوں کے اس طرح آگے پیچھے غائب ہونے سے نہ صرف نوجوان لڑکیوں کے والدین میں سراسیمگی پھیل گئی بلکہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کدھر جارہا ہے۔ لڑکیاں کتنی بے خوفی اور دیدہ دلیری سے ماں باپ پر الزام تراشی کے ساتھ اْس عمل کا اعتراف کر رہی ہیں جو ہمارے دین میں پسندیدہ ہے اور نہ معاشرتی لحاظ سے احسن۔ ٹین ایج کی حامل ان لڑکیوں میں بغاوت کے یہ جراثیم کیوں پیدا ہوئے؟ اس پر ہمیں اجتماعی طور پر سوچنا چاہیے۔عام طور پر اس نوع کے معاملات میں لڑکیاں والدین پر یہ الزام لگاتی ہیں کہ وہ زبردستی ان کی شادی کرنا چاہتے تھے جس پر مجبوراً انہیں گھر چھوڑنا پڑا۔ زیر نظر واقعات میں بھی ا سی طرح کے
الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ہم ان کے اس جواز کو یکسر مسترد نہیں کرتے۔ اس کے باوجود ہمارا استدلال ہے کہ اس مسئلے کا وہ حل نہیں جو انہوں نے نکالا ہے۔ خاندان کے بزرگوں ،مائوں اور سہیلیوں کو درمیان میں لا کر اِسے افہام و تفہیم سے بھی حل کیا جاسکتا تھا لیکن یہاں جو سوال سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ان بالی عمر کی لڑکیوں میں گھر سے فرار کے جذبے کو تحریک کس نے دی؟ کیونکر وہ یہ انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ
ہوئیں۔ ہمارے خیال میں اس کی چند وجوہ اس طرح ہیں۔اس میں سب سے پہلے تو مذہب سے دوری ہے۔ ہمارے ہاں لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان کی دنیاوی تعلیم کی طرف تو بھرپور توجہ دی جاتی ہے لیکن دینی تعلیم سے عموماً اغماض برتا جاتا ہے۔ چنانچہ دین کی بنیادی تعلیمات سے وہ بے بہرہ رہتے ہیں۔گناہ و ثواب کا تصور ان کے ذہن میں واضح نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس نوعمری میں کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت وہ اس کی اچھائی یا برائی میں تمیز نہیں کرسکتے جبکہ اس عمر میں ان کا ذہن تو ویسے ہی ناپختہ ہوتا ہے جو خیر و شر میں امتیاز نہیں کرسکتا۔ اس لیے وہ بھٹک جاتے ہیں۔ دوسری وجہ والدین کی اپنی اولاد کی تربیت سے غفلت اور ان کی روز مرہ سرگرمیوں سے بے پرواہی ہے۔ یہ بنیادی تربیت ہی ہے جو انسان کو اچھے برے کی پہچان کراتی ہے لیکن آج کل بوجوہ ماں باپ کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں پر چیک رکھیں۔ خاص طور پر جب سے ٹچ موبائل آیا ہے یہ نگرانی اور ہدایت بہت ضروری ہو گئی ہے۔ کیونکہ نوجوانوں میں خفیہ رابطے کے اس ذریعے نے بے شمار گھرانوں کی عزتیں برباد کر دی ہیں۔ وہ رات بھر اس میں مگن رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک تو اْن کی پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے دوسرا دعا زْہرہ، نمرہ کاظمی اور دینا رجیسی بیٹیاں جنم لیتی ہیں۔
یہاں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی محلِ نظر ہے۔ جس کے ڈرامے درسِ عشق کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ زندگی کے دیگر بے شمار مسائل کو چھوڑ کر انہوں نے مغرب کی تقلید میں عورت اور مرد کی شادی سے پہلے کی محبت پر فوکس کر لیا ہے چنانچہ بچے بڑوں کو جو کچھ کرتا ہوا دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں ۔ نوخیز ذہن کی لڑکیاں سہانے خوابوں کے باعث اس راہ پر چل کھڑی ہوتی ہیں جس کی منزل بالآخر ان کی تباہی اور بربادی ہے۔ انجام کار وہ گھر کی رہتی ہیں اور نہ باہر کی جبکہ ان کے والدین زندگی بھر بدنامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے پھرتے ہیں۔آخر میں اس حوالے سے ہمیں والدین سے یہ کہنا ہے کہ وہ بھی بچوں کی شادیوں کے معاملے میں ان کی پسند نا پسند کا ضرور خیال رکھیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں اور ویسے یہ خدا اور رسول ؐ کا حکم بھی ہے کہ ان کی زندگی کا ساتھی ان کے مشورے سے منتخب کریں۔ کیونکہ زندگی انہوں نے گزارنی ہے۔ اس صورت میں یقینا آنے والے کئی سانحات سے بچا جاسکتا ہے۔ یہاں ہماری بچوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنی شادیاں بے شک اپنی پسند پر کریں لیکن اس فیصلے میں وہ اگر والدین کو بھی شامل کر لیں تو حرج ہی کیا ہے؟