ہم اخلاقی طورپر کس قدر کمزور ہوتے جارہے ہیں . ہمیں اپنی اعلی اقدار کا پاس ہے نہ تہواروں کا لحاظ ہے! اگر ہمارے پاس احساس اور برداشت کی دولت ہوتی تو عیدالفطر کی خوشیاں یوں سیاسی تلخی کی نذر نہ ہوتیں۔ حیرت ہے کہ ہم مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی روایات تک کو قربان کررہے ہیں۔ دوستوں اور احباب کو وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے لاکھ اختلاف ہوں مگر ان کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ برصغیر کی پوری تاریخ میں کسی رہنما نے چاند رات کے لمحات کو احتجاج کے لیے استعمال نہیں کیا۔ کاش ہم ایسا نہ کرتے تو ہمارا ذکر مہذب ممالک کی طرح اچھے الفاظ میں آتا‘ میرے شہر راولپنڈی میں مسلم لیگ ن ، عوامی مسلم لیگ اور پی ٹی آئی رہنماوں کے ایک دوسرے پر تابڑتوڑ ’’زہریلے جملوں‘‘ نے عید اور عید سے منسلک حالات پراگندہ کردیئے۔ شیخ رشید‘ حنیف عباسی اور فیاض الحسن چوہان کے بیانات کو کون شریفانہ اور مہذ بانہ کہے گا !کیا سیاسی لیڈر اس زبان سے کارکنوں کی تربیت کریں گے ؟لیڈر تو پریشانی اور مصیبت کی بات نظر انداز کر دیتا ہے وہ کسی طور پر لوگوں کو سخت ترین حالات کی نشاندہی سے محفوظ رکھتا ہے۔ شیخ رشید کیسے لیڈر ہیں جو لانگ مارچ کو خونیں اور خانہ جنگی کی مسلسل بات کررہے ہیں۔ کیا انہیں سمجھانے اور دانش و رواداری کا سبق یاد کرانے والا کوئی نہیں! وہ خود کو عطاء اللہ شاہ بخاری کا پرستار کہتے ہیں، انہیں شورش ملک کی رفاقت پر ناز ہے، وہ مولانا غلام اللہ کی خطابت کے عاشق ہیں جن جن کے انداز سیاست وخطابت پر وہ نازاں ہوتے رہے ہیں کیا ان کی گفتگو اس درجے مایوس کن تھی؟
لیڈران کے ساتھ انکے ورکر سوشل میڈیا کے ذریعے سماج کو زہر آلود کرنے کے لیے جو تنقید اگل رہے ہیں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ آج ہر شہر، ہر قبضہ اور مارکیٹ میں تلخی کی وجہ سوشل میڈیا ہے ۔لیڈر صبر اور برداشت کی تلقین کرتا ہے رہنما معافی سے کام لیتا ہے۔ قائد مشکلات کا سامنا جواں مردی سے کرنے کا سبق دیتا ہے۔ ہمارے قائد رنگین مارچ اور خانہ جنگی سے لوگوں کو خوف زدہ کررہے ہیں ۔میڈیا کے صحیح استعمال سے ہم معاشرے میں بہتری لا سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی طاقت کا غلط استعمال کسی بھی ملک کے حالات اور معاشی ومعاشرتی نظام کو درہم برہم کر سکتا ہے۔سوشل میڈیا اس قدر طاقت ور میڈیم ہے کے دنیا کے کسی کونے میں موجود شخص سے آپکی ملاقات کروا سکتا ہے اور آپکو آپکے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے دور کر سکتا ہیتھ رہتے ہوئے بھی ان سے دور کر سکتا ہے صارفین اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے لگ گیا ہے کیا کھایا، کیا خریدا، کیا پہنا، کہاں گھومنے گئے، کس سے ملے ،کس کے ساتھ وقت گزارا، ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں جینے والے لوگ اتنی زندگی جی نہیں رہے جتنی زندگی کیمرے میں قید کر رہے ہیں۔کتنے لائیکس، کتنے کمنٹس، کتنے شیر کی گنتی میں الجھ کر اپنی قیمت، زندگی کی خوبصورتی کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔خودپسندی اور ریکاری کا شکار انسان پانچ ہزار دوستوں کی لسٹ میں بھی تنہائی کا شکار رہتا ہے۔کوئی بھی چیز خود بری نہیں ہوتی اس کا استعمال کرنے کا طریقہ اسے اچھا یا برا بناتا ہے سوشل میڈیا کو لوگ اچھے کاموں کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں جیسے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فیس بک ،واٹس اپ ،سکائپ پر آن لائن قرآن پاک پڑھتے ہیں۔مختلف طرح کے کورس بھی سیکھتے ہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے غرض یہ کہ یہ ہم پر منحصر ہے ہم کسی چیز کا منفی استعمال کریں یا مثبت!!
کاش ہم صبر‘ شکر اور دعاوں کے چراغ جلانے والوں میں شامل ہوتے۔حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے کہ دعا دیتے رہو آپ صاحب دعا بن جاؤ گے!! امام علیؓ کا فرمان عالی شان ہے ایک دوسرے کو دعا دیا کرو! ہوسکتا ہے تمہاری چھوٹی سے دعا سے کسی کا بڑا کام ہو جائے ‘‘اللہ پاک ہمیں نیکی کرنے‘ نیکی پھیلانے اور معاف کرنے اور معافی دینے کے عمل کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے ‘ آمین
سیاست میں تلخی کے کانٹے!!
May 08, 2022