کراچی (کامرس رپورٹر)عید الفطر کی طویل تعطیلات کے بعد جمعہ کو کھلنے والی مقامی کاٹن مارکیٹ میں صرف دوروز کام ہوا تاہم ملک میں روئی کا اسٹاک تقریبا ختم ہو چکا ہے کبھی کبھی اکا دکا سودا ہو جاتا ہے اس طرح اب آئندہ سیزن کے کپاس کے متعلق غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے سندھ کے ذریں علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے متعلق پہلے کی نسبت پانی کی رسد میں کچھ علاقوں میں بہتری بتائی جاتی ہے لیکن فصل پہلے کی توقع کے نسبت کچھ تاخیر سے آنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے لیکن بالائی سندھ میں "ARSA" کے دعوے کے باوجود پانی کا شدید بحران جاری ہے۔ صوبہ پنجاب میں کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں پانی کے بحران کی خبریں موصول ہو رہی ہے علاوہ ازیں درجہ حرارت غیر معمولی ہونے کی وجہ سے کپاس کے پودے کو نقصان ہونے کا خدشہ ہے بہرحال فصل کے رقبے میں اضافہ ہوا ہے اگر موسمی حالات موافق رہے تو فصل اچھی ہو سکے گی بارشیں بوقت ہونے کی صورت میں پیداوار میں اضافہ ہونے کی امید پیدا ہو گی۔حکومت کے متعلقہ اداروں کو کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے دام میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا رجحان ہے ہر ہفتہ گذشتہ ہفتے سے انچے داموں پر مارکیٹیں بند ہوتی ہے خصوصی طور پر روئی کے بھاؤ طے کرنے کا بیرو میٹر گردانے والے نیویارک کاٹن کے بھاؤ میں مجموعی اتار چڑھا کے بعد مجموعی طور پر تیزی کا رجحان غالب ہیں گزشتہ ہفتے کے دوران جولائی وعدے کا بھاؤ بڑھ کر فی پانڈ 155.95 امریکن سینٹ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ USDA کی ہفتہ وار فروخت اور برآمدی رپورٹ کے مطابق 22-2021 کی 2 لاکھ 32 ہزار 400 گانٹھوں کی فروخت ہوئی جو پچھلے ہفتے کے نسبت 92 فیصد زیادہ ہے۔چین 99 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ویتنام 65 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔بنگلہ دیش 24 ہزار گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔2022-23 کی 93 ہزار 200 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ترکی 36 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔پاکستان 19 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔گوئٹے مالا 14 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برآمدات 4 لاکھ 26 ہزار 600 گانٹھوں کی ہوئی جو پچھلے ہفتے کے نسبت 11 فیصد زیادہ ہے۔چین 1 لاکھ 56 ہزار 500 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔ترکی 74 ہزار 200 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔ویتنام 65 ہزار 100 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 48 ہزار گانٹھیں درآمد کرکے چوتھے نمبر پر رہا۔اس کے ساتھ ساتھ کپاس پیدا کرنے والے دیگر ممالک میں بھی روئی کے بھاؤ میں اضافہ کا رجحان ہے خصوصی طور پر کپاس پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک بھارت میں روئی کی پیداوار توقع سے کم ہونے کی وجہ سے بھارتی حکومت نے بیرون ممالک سے روئی کی درآمد پر عائد 11 فیصد درآمدی ڈیوٹی ستمبر تک ختم کردی ہے باوجود اس کے روئی کے بھاؤ میں کمی واقع نہ ہو سکی اب دو، تین ماہ کے لیے روئی کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کے متعلق سوچا جا رہا ہے۔آئندہ سال بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں خصوصی طور پر نیویارک کاٹن کے بھاؤ میں غیرمعمولی اضافے کو دیکھتے ہوئے فارورڈ سودے کرنے میں مقامی ٹیکسٹائل اسپنرز کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا دوسری جانب ڈالر کی اڑان کا بھی کوئی بھروسا نہیں ہے ملکی معیشت کے حالات کو دیکھتے ہوئے کئی بینکرز کا خیال ہے کہ ڈالر کی اڑان 200 یا اس سے تجاوز بھی کرسکتی ہے!؟ روس یوکرین کے بڑھتے ہوئے تصادم کی وجہ سے آئندہ مہینوں میں دنیا بھر کی معیشت کیا رخ اختیار کرتی ہے اس پر بھی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے اس طرح مجموعی امکانات اور واقعات پر گہری نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ علاوہ ازیں ہمارے اندرونی معاملات بھی گھمبیر صورتحال پیدا کر رہے ہیں کاروباری و صنعتی کاشتکار اور مجموعی طور پر عوام الناس کے تمام طبقات ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے آئندہ دنوں میں ملک میں کیا صورتحال رونما ہوگی اس کے متعلق ہر کوئی فکر مند ہے۔صوبہ سندھ و پنجاب میں روئی کا انتہائی قلیل اسٹاک موجود ہے جس کا بھاؤ 18000 تا 21500 روپے ہے کھل اور تیل کے بھا ؤمیں اضافہ کا رجحان۔ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 21000 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔دریں اثنا بنگلہ دیش ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (BTMA) کے صدر محمد علی کھوکن نے کہا کہ دھاگے اور کپڑوں کی مانگ میں اچانک اضافے کی بدولت بنگلہ دیش پہلی بار روئی کی 9 ملین گانٹھیں درآمد کرے گا۔2021 میں، بنگلہ دیش نے 3 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت سے روئی کی 8.5 ملین گانٹھیں درآمد کیں۔ ایک بیل 480 پانڈ یا 218 کلوگرام کے برابر ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کپاس کی درآمد میں اضافہ ہوگا کیونکہ عالمی معیشتوں کے بتدریج دوبارہ کھلنے کے ساتھ بنگلہ دیشی ساختہ ملبوسات کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔علاوہ ازیں کسانوں کے نمائندوں نے دعوی کیا کہ پنجاب کو منصوبہ بند کوٹہ کے مقابلے میں 79 فیصد تک نہری پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، جب کہ نئی قائم ہونے والی صوبائی حکومت اس صورتحال سے کم پریشان دکھائی دیتی ہے۔