معروف شاہراہ پر ایک سائن بورڈ پرلکھا ہوا تھا کہ’’تیز رفتاری خطرہ جان ہے‘‘، اس کے ساتھ ہی نیچے لکھا ہوا تھا کہ’’رفتار کم رکھیں، منزل پر نہ پہنچنے سے بہتر ہے کہ دیر سے پہنچ جائیں‘‘۔دوستو آ ج مجھے تیزروڈ پر تیز رفتاری اس وجہ سے یا داآرہی ہے کہ کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر نا صرف لکھنا ضروری ہے بلکہ بھرپور آگہی مہم چلانی چاہئے اور چلاء بھی جاتی ہے لیکن حیف لوگ اس پر عمل کرنے کی بجائے جو لوگ کم رفتار کرکے روڈ پر جارہے ہوتے ہیں دوسرے ان کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ سست رفتار سے جانے سے والے ٹھیک کررہے ہوتے ہیں اور تیزی دکھانے والے خطرے میں ہوتے ہیں۔ میں کچھ روز قبل رات کے وقت معمول کی رفتار سے ڈرائیو کررہا تھا کہ اچانک آگے روڈ پر رش کی وجہ سے ٹریفک تقریبا رک سی گئی۔ خیر جب خدا خدا کرکے کچھ آگے پہنچا تو دیکھا ایک گاڑی فرنٹ سائیڈ سے بری طرح تباہ ہوچکی تھی، دریافت کیا توپتہ چلا کہ رفتار تیز تھی ٹائر برسٹ ہوا اور پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے یعنی مالی نقصان تو ہوا جان بھی گئی۔پاکستان میں ہونے والے ٹریفک حادثات کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، ان میں سے ایک تیز رفتاری سے گاڑی و موٹرسائیکل کو چلانا ہے۔ اگر پیدل چلنے والے حضرات 45 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی سے ٹکراتے ہیں تو اس سے زخمی ہونے کے 90 فیصد امکانات ہوتے ہیں جبکہ یہی اگر پیدل چلنے والے حضرات سڑک پار کرتے ہوئے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکراتے ہیں تو اس سے بچنے کے امکانات صفر ہوجاتے ہیں۔پاکستان کی حکومت سڑکوں پر بڑھتے ہوئے حادثات کو صحت عامہ کا مسئلہ نہیں سمجھ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ سمیت دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا موازنہ کیا جائے تو وہاں پر کسی بھی فرد کو بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات تیز رفتاری کے باعث جرمانے کے ساتھ ان کا لائسنس بھی منسوخ کردیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسے لوگ 5 فیصد سے کم ہوں گے جو تربیتی اداروں سے ڈرائیونگ کے ساتھ باقاعدہ اصول و ضوابط بھی سیکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ اپنے گھر، دوست احباب و رشتے داروں سے ڈرائیورنگ سیکھتے ہیں اس لیے زیادہ تر ڈرائیورز ناتجربہ کار اور ٹریفک کے قوانین سے نابلد ہوتے ہیں۔ ڈرائیوروں کی ناتجربہ کاری ان سمیت دوسرے افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ڈرائیورز اوورٹیکنگ کرتے ہوئے بائیں جانب سے گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، جو قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن اوورٹیک کرنے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں سڑک کی دائیں لائن سے اوورٹیک کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ دائیں لائن پر عموماً ڈرائیور گاڑی کو آہستہ رفتار سے چلاتے ہیں جبکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا ان کا یہ عمل ٹریفک قوانین کیخلاف ہے۔کم عمر موٹرسائیکل چلانے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو اپنے ساتھ دیگر کیلئے بھی جان لیوا حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ انتہائی تیز رفتاری اور لاپرواہی سے موسائیکل چلاتے کم عمر ڈرائیور ٹریفک قوانین کی بھی پروانہیں کرتے۔تیز رفتاری کے اس جنون نے کئی گھر اجاڑ دیے ہیں۔ آخر یہ لوگ چند لمحوں کی خوشی کیلئے اپنے ساتھ اپنے پیاروں کی زندگیوں کو خطرے میں کیوں ڈالتے ہیں؟ شاید یہ زندگی سے بیزار ہیں ورنہ ایسی حماقت کون کر سکتا ہے؟ اس میں زیادہ قصور انکے والدین کا ہے جو اپنے کمسن بچوں کو موت کی سواری پر سوار ہونے دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل خرید کر دینے سے پہلے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں سکھاتے ہیں بلکہ اپنے کمسن بچوں کی ڈرائیونگ کرنے اور قانون کی خلاف ورزی پر اتراتے رہتے ہیں۔اسی لیے یہ موٹر سائیکل کم چلاتے ہیں اور اپنے فن کا مظاہرہ زیادہ کرتے ہیں۔ لہٰذا شدت کے ساتھ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے پیش نظر ون ویلنگ کے ذریعے خوف ناک کرتب دکھا کر شہریوں کو پریشان کرنے اور سر عام قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کیخلاف ٹریفک پولیس سخت پابندی عائد کرے، خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا اور جرمانے عائد کیے جائیں تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ روڈ پر گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والوں کو ٹریفک سیفٹی کے اصول وضوابط اور سائن کے بارے میں بھی علم نہیںہوتا ہے اس وجہ سے اکثر حادثات ہوتے ہیں۔ڈرائیورز حضرات کو ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کا پابند کیا جانا چاہیے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو کم سن ڈرائیور ہوتے ہیں ان کا چالان کیا جائے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی سفارش کو قبول نہ کیا جائے۔ والدین اور ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کوبچانے کیلئے سفارش یا فون کرنے کی بجائے ان کا چالان کروائیں تاکہ ان کوبھی دوبارہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی جرات نہ ہو بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کرکے ان کی زندگی کو محفوظ بنائیں۔بقول شاعر:وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
٭…٭…٭
’وقت کرتا ہے پرورش برسوں ‘
May 08, 2022