علامہ رضا ثاقب مصطفائی اور’بد دیانت‘ سیاستدان 

علامہ رضا ثاقب مصطفائی عام عوام میں پہلے ہی خاصے معتبر تھے ۔ آرمی چیف کے بیٹے کا نکاح پڑھانے کے بعد سرکار دربار میں بھی معتبر گردانے گئے ۔ ادھر اختیار و اقتدار کے سبھی سوتے انھی دواروں سے ہی پھوٹتے ہیں۔ کیا فہم پایا ہے ۔ ادھر وہ آرمی چیف سابق ہوگئے ، کچھ مسئلے مسائل کا شکار ہوئے ، ادھر انھوں نے’سکہ رائج الوقت‘عمران خان کے لیے پسندیدگی کا اظہار فرما کر باجوہ ناپسندیدگی سے دوری پیدا کر لی۔ ایک وسیع صحن عبور کر کے ان کے شاندار مدرسہ کے تیسرے فلور پر مؤدب سے ہو کر ان کے انتظار میں بیٹھ گئے ۔ احترام ، عقیدت اور ارادت کے سانچے میں ڈھلے مدرسے کے اساتذہ اور طالب علم ادھر ادھر گھومتے دکھائی دے رہے تھے ۔ ابھی موسم گرم نہیںہوا۔ لیکن ان کے ہاں ایئر کنڈیشنر سرگرم ہو گئے تھے۔ بڑے سے ہال کے ایک کونے میں ان کے لیے کرسی میز کا اہتمام تھا۔ ہال کمرہ بجلی کے بلبوں اور فانوسوں سے بھرا پڑا تھا۔
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن، سے کچھ بڑھ کر سماں تھا۔ بلب اتنے کہ شمار سے باہر، کوئی بلب بجھا ہوا دکھائی نہ دیا۔ بلبوں کی گنتی شروع کی لیکن حضرت صاحب کی آمد پر درمیان میں ہی چھوڑ دی ۔ اب کچھ اور مؤدب ہو کر بیٹھ گئے ۔ ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ سبھی ڈرتے جھجکتے اور قدرے شرماتے سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ سبھی کو بولنے سے زیادہ چپ رہنا بھاتا تھا۔ کالم نگار کا بجلی کے روشن قمقموں سے دھیان ہٹتا ہی نہیں  تھا ۔ عرض کی، حضور! میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کا زمانہ تھا۔ انھیں صرف حبیب جالب کا کلام ہی ازبر نہیں اور بھی بہت سی کام کی باتیں ’منہ زبانی‘ یاد ہیں۔ مقامی علماء کا ایک وفد ان سے ملاقات کے لیے پہنچا۔ میاں شہباز شریف ان سے پوچھنے لگے ، ’آپ اس قیامت کا ذکر تو اکثر کرتے رہتے ہیں جو مرنے کے بعد آنی ہے لیکن اس قیامت کا ذکر آپ کی زبان پر کبھی نہیں آیا جو غریبوں پر جیتے جی گزرتی ہے‘۔
انھی دنوں اخبارات میں میاں شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز کے بارے بھی ایک خبر شائع ہوئی ۔ خبر کے مطابق سلمان شہباز نے افریقہ کے کسی ملک سے برفانی چیتوں کا ایک قیمتی جوڑا منگوایا ہے ۔ دونوں خبروں کے پس منظر میں کالم نگار نے روزنامہ ’نوائے وقت‘میں ایک کالم لکھا۔ ’کالم نگار نہیں جانتا کہ علماء کے وفد نے میاں شہباز شریف کے سوشلسٹ سوال کا کیا جواب دیا۔اسے ان کے جواب سے کوئی دلچسپی بھی نہیں۔ کچھ نہ کچھ ضرور جواب دیا ہوگا۔ لیکن کالم نگار اس قیامت کا کیا کرے جو ایک لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلاملک میں ایک جمہوری شہزادے کے برفانی چیتے کا جوڑے منگوانے کی خبر سے اس کے دل پر گزری ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اب عوام بے چاروں کے گھر روشن رہیں یا نہ رہیں ، اس خوش قسمت جوڑے کے لیے بنائے گئے برفاب گھر میں بجلی کی رو کبھی منقطع نہیں ہو سکے گی‘۔
وہ باہوش حکمرانوں کا زمانہ تھا۔ ہوش لمبی حکمرانی کے لوازمات میں پہلی صفت ہوتی ہے ۔ ایک دو روز بعد کالم نگار کو وزیر اعلیٰ ہائوس سے اس نشاندہی پر شکریہ کا فون تھا۔ اس فون میں یہ خبر بھی تھی کہ ان چیتوں کاجوڑا ایبٹ آباد کی پہاڑیوں پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کالم نگار اس مرحلے پر علامہ رضاثاقب مصطفائی کو یہ بتانا بھولا نہیں کہ بھولا بسرا واقعہ اسے اس کمرہ میں بجلی کے غیر معمولی تعداد میں روشن قمقموں کو دیکھ کر یاد آیا۔ مولانا بتانے لگے۔ ہاں ایک مرتبہ دوسرے کمرے میں لگے فانوسوں سے طالب علموں نے ہی کچھ ایسی ہی شکایت کی تھی ۔ ان کی آنکھیں روشنی کی شدت سے چندھیا گئی تھیں۔ انھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پھر وہاں روشنی کچھ کم کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ ہمارے دینی اداروں میں احتساب کا کوئی بندوبست نہیں ۔کسی ادارے کا احتساب کا اپنا بندوبست کوئی موزوں بندوبست نہیں ہوتا۔
ہماری مذہبی تنظیموں کا آڈٹ کا نظام ایک احراری عالم دین کے جواب سے عیاں ہے ۔ ان سے چندے کا حساب پوچھنے پر یوں جواب ملا تھا:’ہم ہندو بنیے نہیں کہ آنے پائی دمڑی شدام کا حساب رکھتے پھریں ۔ہم مسلمان ہیں ، جسے اعتبار ہے چندہ دے ، جسے ہم پر اعتبار نہیں، ہمیں اس سے چندہ چاہیے بھی نہیں‘۔دینی علماء کے توشہ خانوں کی بھی کبھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی ۔ پھر ہر کوئی سید منور حسین امیر جماعت اسلامی کے سے تقوے کا مالک بھی نہیں ہوتاکہ بیٹی کی شادی پر آئے ہوئے تمام تحفے تحائف جماعتی خزانے میںجمع کروادے۔ علامہ رضا ثاقب مصطفائی فقر اورعلم دونوں میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ 
علم فقیہہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم 
علم ہے جو یائے راہ، فقر ہے دانائے راہ 
فقر مقامِ نظر،علم مقامِ خبر 
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی حرام 
لیکن اصراف کو علم اور فقر دونوں ناجائز گردانتے ہیں۔پھر اصراف اس دولت کا جس کے آپ مالک نہیں محض امین ہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلہ کے کہ یہ اصراف گناہ کے کون سے درجے پر ہے؟ اس معاملہ میں ہمارے سیاستدان بڑے بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ ان کا احتساب بڑا کڑا ہے۔ کرپٹ سیاستدان کا لفظ ہربندے کی زبان پر ہے ۔ ممتاز دولتانہ، ایوب خانی زرعی اصلاحات میں باسٹھ ہزار ایکڑ زرعی اراضی سے محروم ہوئے ۔ اتنے بڑے زمیندار تھے کہ 300مربعے زمین پھر بھی بچ گئی ۔ ان کو 25فروری 1960ء کو صوبائی ایبڈو کمیشن نے اطلاع دی کہ وہ 31دسمبر1966ء تک سیاست سے دستبردار ہو جائیں ورنہ اپنے خلاف مقدمہ بھگتیں۔ ان کے خلاف الزامات کی طویل فہرست میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ انھوں نے دانستہ طور پر پانچ ہزار روپے کی رقم کا ناجائز استعمال کیا۔ یہ رقم لائل پور مسلم لیگ نے انھیں صوبائی مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے پیش کی تھی ۔ انھوں نے یہ رقم اخبار ’آفاق‘ لمیٹڈکے حصص کی خریداری کے لیے اس وقت کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ میر نور کے صاحبزادے اقبال احمد کے نام منتقل کر دی ۔ 

ای پیپر دی نیشن