عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال دنیا بھر میں 8 مئی کو’ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے‘ ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد تھیلیسیمیا جیسی موروثی بیماری کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے مناسب اور ٹھوس اقدامات کرنا ہے۔ یاد رہے کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو نسل در نسل اولاد کے زریعے سے منتقل ہوتی ہے۔ عام طور پر اس مرض کی تشخیص بچوں میں دورانِ حمل یا ان کی پیدایش کے بعد ہوتی ہے لیکن اصولاً بچوں کے حقوق کا آغاز وہاں سے ہونا چاہیے، جب ایک لڑکی، لڑکے کی شادی کا ارادہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض سے انتقالِ خون، ہوا، پانی، جسمانی یا جنسی تعلق سے منتقل نہیں ہوسکتی اور نہ خوراک کی کمی یا طبی بیماری سے۔ اگر ماں باپ میں سے کسی ایک کو تھیلیسیمیا مائنر ہو، تو بچے کو بھی تھیلیسیمیا مائنر ہی ہوگا۔ اگر خدا نخواستہ ماں باپ دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہو تو ان کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا۔
اس لیے ضروری یہ ہے کہ اگر خاندان کے اندر شادی ہونے جا رہی ہو تو لڑکا لڑکی دونوں کے ٹیسٹ لازمی کرائے جائیں۔ اگر مائنر بیماری دونوں میں پائی جائے تو وہ شادی روک دی جائے یا احتیاط کے لیے ڈاکٹرز سے مشورہ کیا جائے۔ خاندان میں شادی کے علاوہ بھی اگر کوئی بھی لڑکا لڑکی جب بھی شادی کا فیصلہ کریں تو ازدواجی زندگی میں شامل ہونے سے پہلے اپنا ٹیسٹ لازمی کروا لیں کیونکہ دنیا میں کسی بھی لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک بھی یا دونوں اگر تھیلیسیمیا مائنر ہیں تو حتی الامکان ہے کہ ان کی اولاد میں سے کوئی بھی ایک یا ایک سے زیادہ بچے یا سب بچے ہی تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار ہوں جنھیں زندہ رہنے کے لیے مسلسل خون کی ضرورت پڑے گی۔ لہٰذا شادی سے قبل تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ لازمی کروائیں تاکہ اس طرح بآسانی تھیلیسیمیا کا راستہ روکا جاسکے اور آنے والی نسلوں کو ایک صحت مند تندرست اور محفوظ مستقبل مل سکے کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔
آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تھیلیسیمیا آخر ہے کیا چیز؟ تھیلیسیمیا خون کے اس مرض کو کہتے ہیں جس میں معیاری خون ناکافی بنتا ہے۔ یہ خون میں ہیموگلوبن کا پیدائشی نقص ہے۔ اس کی 3 اقسام ہیں، پہلی تھیلیسیمیا مائنر، دوسری تھیلیسیمیا انٹر میڈیا اور تیسری تھیلیسیمیا میجر ہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر کسے کہتے ہیں؟ جو لوگ والدین میں سے ایک سے نارمل اور ایک سے ابنارمل جین حاصل کرتے ہیں، ان کو تھیلیسیمیا مائنر کہتے ہیں۔ ان میں بیماری کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ابنارمل جین اپنے بچے کو منتقل کرسکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کسے کہتے ہیں؟ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کے حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تھیلیسیمیا کی درمیانی قسم ہے، جس میں ہیموگلوبن 7 سے 6 تک رہتی ہے اور تھیلیسیمیا میجر کے مقابلے میں اس میں مریض کو خون لگوانے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ تاہم اس میں ’سائیڈ افکیٹس‘ آسکتے ہیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘ تھیلیسیمیا میجر کون لوگ ہوتے ہیں؟ تھیلیسیمیا میجر خون کی خطرناک بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو بروقت خون نہ دیا جائے تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 لاکھ سے زائد بچے تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر سال ان بچوں کی تعداد میں 15 ہزار کا اضافہ ہورہا ہے جو تھیلیسمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وہ علاقے جہاں پشتون قبائلی زیادہ تعداد میں آباد ہیں اور وہ خاندان کے اندر شادیوں کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی نسل میں تھیلیسیمیا کی شرح زیادہ ہے۔ اس موذی مرض کا راستہ روکنے کے لیے سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ خاندان کے اندر ہونے والی شادیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اگر ایسا کرنا کچھ خاندانوں کے لیے مشکل ہو تو پھر چاہیے کہ شادی کے بندھن میں بندھنے سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کے ٹیسٹ کرائے جائیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے 2009ء میں اسمبلی سے ایک قانون پاس کروایا جس کے تحت صوبے میں کوئی بھی شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کی تشخیص کے لیے لازمی ٹیسٹ کروائے گا اور اس کی ذمہ داری نکاح رجسٹرار پر ہوگی کہ وہ نکاح رجسٹرڈ کرنے سے پہلے جوڑے کے ٹیسٹ کی تصدیق کریں۔ قانون کے مطابق اگر نکاح رجسٹرار نے ٹیسٹ کے بغیر نکاح رجسٹرڈ کیا تو ان کا لائسنس منسوخ کرکے ان کو 10 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا تاہم اس قانون کا اطلاق صوبے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کروانے پر حکومت بھی بے بس ہے۔
یہ بیماری بچوں میں کیسے منتقل ہوتی ہے؟ جب بچے کے والدین کے جسم میں تھیلیسیمیا کے اثرات موجود ہوں یا وہ 'تھیلیسیمیا مائنر' ہوں تو زیادہ امکانات یہی ہیں کہ ان کے پیدا ہونے والے بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہوں گے۔ تھیلیسیمیا مائنر میں بچے کے والدین میں تھیلیسمیا کے آثار موجود ہوتے ہیں لیکن ظاہر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ سے چھ فیصد لوگ تھیلیسمیا مائنر کا شکار ہیں۔ اب جب یہ والدین جو تھیلیسیمیا مائنر ہوں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ شادی کریں تو ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں تھیلیسیمیا میجر کے اثرات ظاہر ہوں گے یعنی ان کے بچے جب سات ماہ سے ایک سال کی عمر کو پہنچیں گے تو ان کا جسم خون پیدا کرنا چھوڑ دے گا اور پھر ان کو خون لگانے کی ضرورت ہوگی۔ تھیلیسیمیا مائنر لوگوں کو سائلنٹ کیریئر کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں تھیلیسیمیا کی علامات نہیں ہوتیں لیکن وہ ان کو اپنے بچوں میں منتقل کرکے ان کو تھیلیسیمیا میجر بنا دیتے ہیں۔'
موروثی مرض سے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے اِس مرض کے پھیلنے کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی دونوں کا تھیلیسیمیا کیرئیر ٹیسٹ ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس موروثی مرض سے محفوظ بنایا جاسکے بلکہ نکاح نامے سمیت قومی شناختی کارڈ پر بھی تھیلیسیمیا ٹیسٹ کا اندراج کیا جانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ بیماری منتقل نہ ہوسکے۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں بہت سے ممالک تھیلیسیمیا کو شکست دے کر اپنے ملک میں تھیلیسیمیا کا خاتمہ کر چکے ہیں اور ہم آج بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی اس پر قابو نہیں پاسکے ہیں۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا پر قانون سازی اور اِ س پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ایران، مالدیپ، قبرص وغیرہ میں مناسب قانون سازی کے ذریعے ہی تھیلیسیمیا کا تدارک ممکن ہوا۔ پاکستان میں بھی نہایت ضروری ہے کہ تھیلیسیمیا کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، اخبارات میں مضامین شائع کیے جائیں، اس سے آگاہی کے لیے ٹی وی اور ریڈیو پر پروگرام اور اشتہارات بنا کر چلائے جائیں، موبائل فون کال کے دوران عوامی آگاہی مہم چلائی جائے، مزید یہ کہ سماجی کارکنوں اور فلاحی تنظیموں کو اس مقصد کے متحرک کیا جائے جبکہ حکومتی سطح پر اس بڑے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہیے اور اس بچاؤ کے لیے کوئی مناسب منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
میں نوجوانوں، طلبہ، عام شہریوں اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے خون کا عطیہ لازمی دیں۔ آپ کے خون کے عطیہ سے کسی معصوم بچے کو زندگی کا تحفہ مل سکتا ہے۔ بلاشبہ صحت مند تندرست زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا خون کب بنتا اور ختم ہوکر نیا بننا شروع ہوجاتے درحقیقت اس خون کی اہمیت وہی لوگ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں جنھیں خون لگنے سی ہی زندگی جینے کی طاقت اور ہمت ملتی ہے۔ آپ کے لیے خون کا عطیہ صدقہ جاریہ اور جسم کی زکوٰۃ بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔
٭…٭…٭