ایں سعادت بزور بازو نیست

فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی

کالم کا عنوان فارسی زبان میں حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے۔پورا شعریوں ہے کہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
یعنی جب تک عطا کرنے والا اللہ کسی فرد کو کوئی مرتبہ، صلاحیت اور عزت عطا نہ کرے کسی شخص کے بازو کی طاقت سے وہ مرتبہ ،صلاحیت، عزت یا سعادت نصیب نہیں ہوتی۔اس شعر سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور انسان کی خاکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ پاک قادر مطلق ہے جسے چاہے عزت دے۔اس لیے ہر انسان کو اللہ پاک کی رحمت اور عنایات کا امیدواربھی رہنا چاہیے۔ ویسے تو روزمرہ زندگی میں ہزاروں ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیںجن میں اللہ پاک کی ان عنایات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے لیکن بابا جی عبدالقادر مری صاحب کو ملنے والا مرتبہ اور مقام دیکھ کر اس شعر کا مطلب مزید واضح ہو جاتا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ صوبہ بلوچستان کے ایک دور افتادہ علاقہ میں آباد مری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے بیاسی سالہ بزرگ عبدالقادر جھونپڑی میں رہائش پزیرتھے۔ہر مسلمان کی طرح ان کے دل میںزندگی کے اختتام سے پہلے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری اور اللہ پاک کے گھر کی زیارت کی خواہش موجود تھی۔غربت اور تنگدستی کا دور دورہ تھا۔بابا جی نے محنت مزدوری کی،بکریاں چرائیں اور پائی پائی جمع کر کے اللہ پاک کے فضل و کرم سے عمرہ کی ادائیگی کے لیے رقم کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔طویل عرصہ کے بعد دیرینہ خواہش پوری ہو گئی اور بابا جی مقدس سر زمیں پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے مشابہت رکھنے والے سفید عمامہ  ،سفید چادر،ایک ہاتھ میں تسبیح اور ایک ہاتھ میں کھونڈی پکڑے مسجد نبوی میں برہنہ پا بابا جی کا عشق و محبت سے بھر پور اور مسحور کن والہانہ اندازکسی نامعلوم فرد کے کیمرے میں محفوظ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوکر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ایک دیڑھ منٹ کے کلپ میں پتہ نہیں کیا جادو ہے کہ ہر فرد نے بار باراس کو دیکھا اور با ر باردیکھنے کا خواہشمند ہے۔شروع میں کسی کوشہرت کی بلندیوں ہر پہنچنے والے ان بابا جی کا کوئی تعارف نہیں تھا۔لوگ اندازے لگا رہے تھے لیکن کچھ دنوں بعد راز کھلا کہ بابا جی مملکت خدادا پاکستان کے باسی ہیں۔یوں دنیا میں پاکستاں کا نام بھی سربلند ہوا۔حکومت سعودیہ نے بابا جی کی بھر پور عزت افزائی فرمائی اور شاہی مہمان کے طور پر حج کروانے کا اعلان کیا۔ ہمارے حکمران بھی اگرحصول اقتدار کی طویل جنگ میں مصروف نہ ہوتے تو شایدکچھ کر گزرتے اور نہیں تو ایک دن وزیر اعظم ہا?س میں بابا جی کو مہمان بنا کر برکات سمیٹ لیتے۔ ہمارے ذہنی غلام میڈیا کے لیے بھی مقام فکر ہے۔ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ کی کسی اداکارہ کا کلپ ہوتاتو ہمارا میڈیا کئی ماہ تک دکھا دکھا کر عوام کی مت مار دیتا۔
بابا جی نہ تو کوئی بڑے عالم ہیں،نہ بڑی دولت کے مالک ہیں،نہ وہ خود کسی بڑے عہدے پر فائز ہیں ، نہ ہی ان کے خاندان میں کوئی مشیر یا وزیر ہے اور نہ ہی بابا جی کا کوئی بڑا سوشل میڈیا نیٹ ورک ہے۔لیکن ایک بات واضح ہے کہ رب العزت نے ان کو شہرت کی جو بلندیاں عنایت فرمائیں وہ کسی بادشاہ وقت کو بھی نہ نصیب ہوئیں اور نہ کبھی نصیب ہوں گی۔بابا جی کو شہرت کی یہ بلندیاں اپنے یا کسی کے زور بازو سے نصیب نہیں ہوئیں بلکہ اللہ پاک کا خاص فضل و کرم ہے۔کرہ ارض پر کسی فرد کی اس طرح کی مقبولیت کو معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ذیشان کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل امین کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔پھر جبرئیل علیہ اسلام بھی اس بندے سے محبت کرتے ہیں اور آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔پھر آسماں والے فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں۔اس کے بعدوہ بند ہ زمیں والوں کے دلوں میں بھی مقبول ہو جاتا ہے۔حقیت یہی ہے کہ یہ مقبولیت اور یہ مقام اللہ پاک سے سچی محبت اور کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق کی بدولت ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی یہ نعمت عطا فرمائے۔آئیں
عشق سرکار کی اک شمع جلا لو دل میں
بعد مرنے کے لحد میں بھی اجالا ہوگا
خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا
آپ آئیں تو میرے گھر میں اجالا ہو گا
بابا عبدالقادر صاحب کی داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔وطن عزیز میں آپ کی مقبولیت سے چند لبرل ،وطن دشمن اور دین دشمن ،جو اسلام دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،کے منہ جھاگ آلود ہوئے۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رخ بابا جی کی طرف کیا ہوا ہے اور بکواس پر بکواس کیے جارہے ہیں،فوٹو شاپ ٹیکنالوجی کی مدد سے تصاویر بنا کر منظم مہم چلا رہے ہیں۔کچھ نادان دوست اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے انٹرویوز کرنے کے چکرمیں ہیں اورخدشہ ہے کہ کچھ حضرات اپنی دکانداری چمکانے کے لیے کوششیں کریں گے۔جس ذات پاک نے بابا جی کو یہ عزت دی انشائ￿ اللہ ان کی حفاظت بھی فرمائے گا۔ بابا جی سیدھے سادے درویش صفت انسان ہیں اللہ پاک ان کو سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں اور دکانداروںسے محفوظ رکھے۔

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن